کورونا وائرس کے خلاف جنگ عمران خان کہاں ہیں۔۔؟؟

تحریر:  علی کاظم

دنیا ان دنوں ایک ایسے دشمن کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جسے انسانی آنکھ سے دیکھا ہی نہیں جاسکتا اور جو ہر روز اپنے سپاہیوں کی تعداد میں اضافہ کرتا جارہا ہے اور اس کے مقابلے میں ہزاروں ایٹم بم، سینکڑوں لڑاکا طیارے بھاری اسلحہ، جدید ٹیکنالوجی اور لاکھوں فوجیوں کے ساتھ اربوں کھربوں ڈالرز رکھنے والی تمام حکومتیں ایسے ہی بے بس ہیں جیسے سمندر کی طغیانی میں پھنسی کوئی کاغذ کی کشتی۔

ہر ملک نے اس دشمن کے خلاف جو ممکن ہوسکا جیسا سمجھ آیا ویسی حکمت عملی اپنائی لیکن مکمل کامیابی کا دعویٰ کوئی نہیں کرسکا اور شاید مستقبل قریب میں ایسا دعویٰ کرنا ممکن بھی نہ ہو۔

ترقی پذیر اور ترقی پسند ممالک کی تو چھوڑیئے ترقی یافتہ ممالک گُھٹنے ٹیکے ہوئے ہوئے ہیں لیکن اس بات کو برملا کہنا پڑے گا کہ جب یہ وباء پاکستان جیسے ملک میں داخل ہوئی تو یقینا اس وائرس نےاپنی بدبختی پرخود کو لعن طعن ضرور کی ہوگی کہ کیا ضرورت تھی یہاں آکر اپنا وقت اور مہلک ہتھیار ضایع کرنے کی اس ملک میں تو 22 کروڑ اینٹی وائرس، 22 کروڑ ڈاکٹرز، 22 کروڑ لیڈرز موجود ہیں اور اتنے قابل لوگوں کے درمیان بے چارے اس چھوٹےسےوائرس کو اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے جتنے جتن کرنے پڑ رہے ہیں اتنے تو دنیا کے 195 ممالک کے لاکھوں لوگوں کو مریض بنانےمیں اسے نہیں کرنے پڑے ہوں گے۔

ویسے بھی کورونا وائرس کی دُہائی سننے کا کسی کے پاس ٹائم کہاں یہاں تو ہم سب ایک دوسرے کو دہائیاں دینے میں مصروف ہیں اور کیوں نہ ہوں یہ ہمارا محبوب ترین مشغلہ ہے اور اس کام میں ہمارے اساتذہ کرام میں وہ سیاسی جماعتوں کے لیڈران ہیں جنھوں نے اپنی پیدائش کے بعد سے ہی عوام کو ہر مخالف لیڈر اور ہر حکومت کے خلاف بیانات دینے اور اس کے اقدامات پر تنقید کرنے کا درس دیا ہے اور اس مخالفت کی ڈگری کا پہلا اصول یہی ہے کہ یہ نہیں سننا اور سمجھنا کہ کون کیا کہہ رہا ہے کیا کررہا ہے بس تنقید کے تیر چلانا ہے اور مخالفتوں کی گولہ باری جاری رکھنی ہے۔

اور یہ عمل زور و شور سے جاری ہے، پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا کی بیٹھکیں یا سوشل میڈیا کا محاذ ہر جگہ من مانیوں اور اور لعن طعن کے ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال جاری ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ یہ بھی بھول گئے کہ کب کیا کہنا ہے، کس کی ماننی ہے ، کیا کرنا ہے، خود کو کیسے بچانا ہے۔۔۔؟؟

بھانت بھانت کی ان بولیوں میں ایک آواز جو بار بار سنائی دی جاتی رہی وہ یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کردو۔۔۔ لاک ڈاؤن ہونا چاہیئے۔۔۔۔ یہ بولنے والے بلکہ چلانے والے یہ بھول گئے کہ ان کے پاس تو کھانے کو روٹی کیا پیزا اور برگرز تک کے انبار اور بینکوں میں بھاری رقوم ہوں گی لیکن ایسے لاکھوں کروڑوں افراد ہیں جو صبح روکحی روٹی کھائیں تو شام کی فکر میں اس ایک روٹی سے زیادہ کی انرجی جلا دیتے ہیں۔

اسی چیخ و پکار میں کسی نے یہ سننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی کہ جس بندے کے پاس ملک کی باگ ڈور ہے وہ کوئی ایسا سیاستدان نہیں جس نے صرف اپنی سوچی ہو، یا ملک و قوم کو لُوٹا ہو وہ جو کہہ رہا ہے اسے سمجھنے کی کوشش تو کسی نے کی ہی نہیں بلکہ اس مخالفانہ طرز عمل میں اس کی جانب سے تاریخ کے سب سے بڑے ریلیف پیکج کو بھی ہوا میں اڑا دیا گیا۔

کوئی ہمیں بھی بتادے کہ وزیراعظم کی یہ بات کہاں غلط ہے جب وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے فیصلے ایک چھوٹی سے ایلیٹ کلاس کو دیکھ کر کیے جاتے رہے، کرونا وائرس کے پیش نظر بھی لاک ڈاؤن کو لے کر عمومی سوچ یہی ہے۔ مکمل کرفیو یا سخت لاک ڈاؤن لگانے سے نقصان امیر کو نہیں بلکہ کچی بستیوں میں رہنے والے غریبوں کو ہوگا۔

عمران خان کا یہ اعلان کہ مزدور طبقے کے لیے 200 ارب روپے مختص کر رہے ہیں، یوٹیلیٹی اسٹورزکیلئے 50 ارب روپے مزید مختص کیے ہیں، گندم کی سرکاری خریداری کے لیے 280 ارب، انتہائی غریب طبقے کے لیے 150 ارب روپے مختص کر دیے، 100 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ سے صنعتیں لیبر پر خرچ کر سکیں گی، برآمدی صنعت کو 100 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ فوری دینے کا فیصلہ کیا ہے، ان اہم اعلانات کو مجرمانہ طور پر فراموش کیوں کیا جارہا ہے۔۔!! کیا ماضی میں کبھی کوئی اس طرح کے ریلیف کی مثال ملتی ہے۔۔؟؟

سچ یہ بھی ہے کہ عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ خطرہ کرونا سے خوف میں آکر فیصلہ کرنے کا ہے، لاک ڈاؤں کا آخری اسٹیج کرفیو ہے،مکمل لاک ڈاؤن کرنے سے غریبوں کو کھانا کون فراہم کرے گا۔۔؟؟ تو ان کی اس بات کی سمجھ چیخنے چلانے والوں کو کیسے آسکتی ہے۔۔!!

ویسے یہ پوچھنا تو ہمارا بھی حق ہے کہ وزیراعظم کا یہ کہنا کہاں غلط ہےکہ قوم کے بغیر یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی، ہم سب کوسوچنا چاہیے جہاں بھی لوگ جمع ہوں گے وائرس بڑھنے کا خدشہ ہے، پوری کوشش کر رہے ہیں اسپتالوں کا سامان پورا کرلیں، خدانخواستہ کرونا وائرس بڑھا تو اسپتالوں پر بہت پریشر آئے گا۔ عوام اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور ہمیں اپنا کام دلجمعی سےکرنے دے۔

لیکن افسوس یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ماضی کے سیاستدانوں نے ہماری عوام کی سوچ کو پسماندہ اور ذہنیت کو اس حد تک منفی کردیا ہے کہ ہمیں اپنے بھلے کی بات نظر نہیں آتی تودوسروں کا بھلا کیسےسوچیں گے۔۔؟؟ اسی لیئے تو صوبائی حکومتوں کے اعلانات کے باوجود سیلف آئسولیشن اور لاک ڈاؤن پر مکمل عمل نہیں کیا جارہا، کیونکہ ہر دوسرے آدمی کی سوچ پہلے سے مختلف ہے وہ کیوں کسی کی مانے گا۔۔۔!!

وہ جو عام آدمی کے بارے میں سوچ رہا ہے اور اپنی عوام کی کیفیت سے بھی آگاہ ہے تو اس کی بات کی سمجھ کیسے آسکتی ہے۔۔۔؟؟

وہ جو مصنوعی اشرافیہ کی صورت میں عام آدمی کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں ان کے نزدیک تو کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں عمران خان کہیں نہیں ہیں۔

ایسے میں حسن نثار کی یہ بات 100 فیصد درست نظر آتی ہے جس میں وہ ٹالسٹائی کے ایک قول کو دہراتے ہیں کہ :

’’اگر کسی رات اچانک ایسی وباء پھیلے کہ اس کے سبب دنیا بھر کے تمام بادشاہ، نواب، راجے، مہاراجے، رائے، رئیس، جاگیردار، سیٹھ، ساہوکار، امرا، سرمایہ دار وغیرہ مر جائیں تو نظامِ عالم میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آئے گا لیکن اگر کسی اور وباء سے دنیا بھر کے کسان، مزدور ،جولاہے، چمار، بڑھئی، دھوبی، موچی، نائی، درزی، معمار، بھنگی، گوالے، گڈریئے، کوچوان، قلی ، گاڑی بان موت کے گھاٹ اتر جائیں تو یہ دنیا کسی کام کی نہ رہے اور بہت بڑا دوزخ جن جائے۔

حسن نثار کے مطابق کورونا وائرس سے دنیا سبق سیکھے نہ سیکھے، اپنے انداز اسلوب اعمال کو تبدیل کرے نہ کرے لیکن پاکستان کی ’’میڈ ان پاکستان‘‘ مصنوعی اشرافیہ کو اپنے رویے ری وزٹ کرنا ہوں گے ورنہ انجام بہت بھیانک ہوگا۔

اس تناظر میں یہ یاد رکھیں کہ عمران خان اشرافیہ کو نہیں اسی مزدور، اسی عام آدمی اسی غریب کو بچانے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ وائرس سے اتنے لوگ شاید نہ مریں جتنے ان مصنوعی اشرافیہ کی ناجائز خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں مر جائیں گے۔

ایسے میں صرف ایک ہی التجا کی جاسکتی ہے کہ اللہ کے واسطے اس نازک ترین دور میں اپنی من مانیاں نہ کریں، حالات کی سنگینی کا احساس کریں اور وزیر اعظم کی بات کی گہرائیوں کو سمجھیں، اگر آپ سیاسی طور پر ان کے مخالف بھی ہیں تب بھی یہ سوچ کر تعمیل کریں کہ اس مشکل وقت میں کسی کو تو ماننی ہی ہے تو کیوں نہ اپنے حکمران کی بات مان کر اس کی طاقت بڑھاتے ہوئے اس اہم ترین جنگ کو جیتنے میں اپنا حصہ بھی ڈال دیا جائے ویسے بھی وہ عام آدمی کی بات کررہا ہے، اب بھی کسی نے نہ سمجھا اور سب نے اپنی اپنی بولیاں جاری رکھیں تو نتیجہ اتنا تباہ کُن ہوگا جس کا تصور بھی کسی نے نہ کیا ہوگا۔ آیئے اور حکومت کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں، متحد ہوجائیں، اپنی سوچ کو پرے رکھ کر اجتماعی سوچ کو فروغ دیں اسی میں سب کی بقاء ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں