امریکہ میں افطار ڈنر: سارے مذاہب ایک زبان ہوگئے

رپورٹ: شہر بانو

کیلی فورنیا میں واقع ٹیمپل بت یحم میں منعقدہ ، امریکی مسلم اورکثیر المذاہب خواتین کی ایمپاورمنٹ کونسل (اے ایم ڈبلیو ای سی) کے زیر اہتمام  زوم افطار میں مختلف العقائد برادریوں کے رہنماؤں کی ایک ملاقات ہوئی۔ “امن کے لئے متحد ہو کر، اپنی سکھ برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے ہمارا ساتھ دیجئے” کے عنوان سے افطار اے ایم ڈبلیو ای سی کے زیر اہتمام ایک سالانہ تقریب ہے، جو اس سال کورونا کی وبا کی وجہ سے زوم کے ذریعے منعقد ہوا اور اس کا مقصد مختلف مسلکی نمائندوں کو تبادلہ خیال کے لئے ایک پلیٹ فارم پرجمع کرنا تھا ۔

افطار پارٹی کے شرکاء نے جو یہودی ، زرتشت ، ہندو ، عیسائی ، سکھ ، اور مسلمان سمیت متعدد مذہبی جماعتوں کی نمائندگی کررہے تھے، اظہار خیال کرتے ہوئے اس حقیقت پر اتفاق کیا کہ کورونا کی وبا نے ہمیں اس پر غور کرنے کا  مو قع فراہم کیا ہے کہ ہم ماضی میں کیا کرتے رہے ہیں، اب کیا کر رہے ہیں اور آ ئندہ مستقبل  میں ہما را لائحہ عمل کیا ہوگا۔  حسن اتفاق ہے کہ اگر ایک طرف مسلمان ماہ  رمضان  کی بر کتوں سے فیضیا ب ہو راہے ہیں تو دوسری  طرف عیسائی، سکھ اور زرتشترین سمیت دیگر مذاہب  بھی اپنے تہوار منا رہے ہیں ۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف بی آئی:

ایف بی آئی کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر ان چیف ڈیلاکورٹ  نے کہا کہ اگرچہ رمضان روزے رکھنے کے لحاظ سے ایک  جسمانی چیلنج کا مہینہ ہے ، لیکن اس دفعہ رمضان مختلف ہے کیوں کہ اس نے لوگوں کو گھر تک محدود کردیا ہے اور انہیں اپنے ہمسایہ ، اپنی برادری کی دیکھ بھال کرنے اور عمومی مسائل کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ خاندان، برادری، راحت اور آزادی اس رمضان کی تعلیمات ہیں۔

صدر ایم ڈبلیو ای سی ، انیلا علی:

رمضان المبارک ، جو رواداری ، امن اور قربانی کا مہینہ ہے ، کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ، اے ایم ڈبلیو ای سی  کی صدر مس انیلا علی نے کہا کہ رمضان کے مقدس مہینے نے ہمیں احساس دلایا ہے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں۔ اللہ تبارک و تعالی چاہتا ہے کہ ہم اس صورتحال میں ایک دوسرے کا خیال رکھیں ، کوویڈ 19 نے ہم سب کو ایک جگہ جمع کیا ہے تاکہ ہم اپنی سلامتی، صحت اور گھر کے اندر فلاح  کو یقینی بنانے کے لئے صحت سے متعلق کارکنوں ، ڈیلیوری ڈرائیوروں ، دکانداروں اور ہنگامی حالات میں کام کرنے والوں کی خدمات کو سمجھیں۔” آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کا  حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: “اللہ کوئی بیماری پیدا نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ اس کا علاج بھی ساتھ پیدا کرتا ہے سوائے بڑھاپے کے۔” انہوں نے کہا کہ یہ بہترین وقت ہے کہ ہم اس وبائی بیماری کا علاج دریافت کریں۔

ربی پیٹر لاوی:

ربی پیٹر لاوی نے کہا کہ کوویڈ 19 کی وجہ سے بہت کچھ بدلا ہے لیکن اس کثیر المذاہب سالانہ تقریب کی روایت نہیں ، اگرچہ کہ اس بار یہ  مجازی طور پر منعقد ہوئی ہے۔ “بہت کچھ بدلا ہے مگر ابھی تک بہت کچھ ویسا ہی ہے۔ ہمیں آزادی اور ذمہ داری کے مابین توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “کورونا وائرس نے ہمیں باور کرایا ہے کہ ہم چاہے کتنی ہی بڑی قوم کیوں نہ ہوں، وائرس نے ہم سب کو بلا تفریق متاثر کیا ہے۔”

کانگریسی رکن جوڈی چو:

کانگریسی رکن جوڈی چو نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ مسلم سفری پابندی پر تنقید کرتے ہوئے اپنے متعارف کردہ  “نو بین ایکٹ” کے بارے میں بتاتتے ہوئے کہا کی یہ بل صدر ٹرمپ کے مسلم پابندی کے تینوں ورژن منسوخ کردے گا۔ “رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہمیں صدقہ اور روحانیت کی تعلیم دیتا ہے اور لوگوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی برادری کے ساتھ  اس مقدس مہینے کو ان بنیادی اصولوں کے تحت منائیں اگرچہ کہ وائرس کی وبا کی وجہ  سے بہت سے خاندان ایک ساتھ مل کر رمضان نہیں منا  پا رہے ہیں  مگر بدقسمتی سے، اس سنگین صورتحال سے قبل بھی بہت سے خاندان جُدا ہوگئے تھے اور وہ نہ صرف رمضان نہیں مناسکے تھے بلکہ ان  کےلیے  شادیوں، جنازوں یا گریجویشن کی تقاریب  میں بھی  شامل ہونا   امریکہ  میں داخلے پر عائد پابندی کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔

شیرف ڈان بارنس:

شیرف ڈان بارنس نے پچھلے سال  ہونے والے سانحات خصوصی طور پر سکھ برادری پر حملہ  کو پوری برادری پر حملہ قرار دیا۔” اگرچہ کہ ہمارے ہاں مختلف عقائد  رہائش پزیر ہیں لیکن اس اورنج ملک میں ہم ایک برادری ہیں۔  اسی لیے  یہ انفرادی نہیں ہیں بلکہ ایک برادری پر حملہ ہے –  اپنی مذہبی رواداری کی روایت کی وجہ سے ہم مشترکہ طور ہم  اپنی سکھ برادری کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں اور اس مشکل گھڑی  میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس مو قع پر ڈیانا گونزالیز  کا  کہنا تھا کہ ، “اپنے عقیدے سے قطع نظر ، ہم ایک دوسرے کے کلچر سے بطور ایک خاندان لطف اندوز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے عقیدے اور ثقافتی تنوع کو قبول کرتے ہیں

پادری زریر بھنڈارا:

پادری زریر بھنڈارا نے کہا کہ زرتشترین دنیا کا قدیم ترین عقیدہ ہے جو محبت اور بقائے باہمی کو فروغ دیتا ہے۔ “کوویڈ 19 کے بعد ، اپنے مذہبی اختلافات سے قطع نظر ہمیں جیو اور جینے دو کے اصول پر کاربند ہو کر سب کو متحد ہوجا نا چاہئے ۔” انہوں نے 1936 ء کے دور سے ایک مثال  دیتے ہوئے بتایا کہ جب زرتشتی عقیدے کے پیروکاروں کے ایک گروپ نے ہندوستان میں پناہ کے لئے درخواست دی۔ اس پر ، اس وقت کے ہندوستان کے حاکم نے دودھ سے بھرا ہوا پیالہ ان کے گروپ لیڈر کے پاس بھیجا ، جس کا مطلب یہ تھا کہ ہندوستان پہلے ہی بھرا ہوا ہے اور اس میں کسی باہر سے آنے والے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس پر ان کے گروپ لیڈر نے دودھ میں چینی ملا کر واپس بھجوا دی جس کا مطلب تھا کہ وہ ان کے ملک پر کوئی بوجھ نہیں ہوں گےاور چینی کی طرح مقامی آبادی میں گُھل مل جائیں گے اور مٹھاس پھیلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ زرتشترین چینی اور دودھ کے امتزاج کی طرح امن ، اتحاد اور ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں۔

ماریہ واسطی:

پاکستانی اداکارہ اور خواتین و انسانی حقوق کی  علمبر دار ماریہ واسطی نے کہا کہ اس  وبائی مرض نے  ہم سب کو اپنی ترجیحات طے کرنے کا احساس دلایا ہے کہ ماضی میں ہم نے کیا کیا، اب ہم کیا کر رہے ہیں اور آئیندہ کیا کریں گے۔ “فنکار معاشرے کا آئینہ ہوتے ہیں اور فن زندگی کی روح ہے۔ ہم اپنے اطراف جو کچھ دیکھتے ہیں اسی کو ہم تخلیق کرتے ہیں۔ یہ جینیاتی امتزاج کی طرح ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر دُکھی ہیں کہ اسلام اور اس کے معنی کو کس طرح مسخ کردیا گیا ہے۔ “میں نے اپنے طور سے اسلام کے حقیقی معنی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے جو مکمل طور پر امن اور ہم آہنگی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ انسانوں اور انسانیت  کے رشتہ کو مقدم رکھا جائے ۔”

 لیسلی مارشل:

مشھور ٹاک شو کی میزبان لیسلی مارشل ، جن کے والدین یہودی اور عیسائی تھے اور ان کے شوہر ایک مسلمان ڈاکٹر ہیں (جو کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد ہنگامی حالات میں کام کر رہے ہیں)، نے مختلف مکاتب فکر کے تنوع کو بیان کرتے ہوئے اپنے گھر کو اقوام متحدہ  کی مانندقرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ رمضان خدا کے ساتھ وابستگی کا مہینہ ہے۔ “مشہور شخصیت ہونے کے ناطے میں اس مہینے کے دوران زئیادہ تر سفر اور ٹی وی ریڈیو شوز وغیرہ میں مصروف رہتی تھی  لیکن اب گھر میں ہونے کی وجہ سے، ہم اپنے رشتہ داروں سے زوم پر بات کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں جو کہ  نہ صرف ایک خوشگوار تجربہ ہی نہیں بلکہ ہمیں ہماری ذمہ داریوں سے آگاہ کر رہا ہے۔ کوویڈ 19 نے ہمیں گھر میں رہنے اور مسلمان نہ ہونے کے باوجود یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہم اپنے خالق اور اپنے خاندان کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دیں۔ رمضان نے اس کام کو زیادہ آسان بنا دیا ہے۔

علامہ قزوینی:

شیعہ اسکالر علامہ قزوینی نے ہنگامی حالات میں کام کرنے والوں کی تعریف کی جو لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ “ہم تقوی کے حصول کے لئے روزہ رکھتے ہیں جس کا مطلب ہے خدا کی موجودگی کا ادراک رکھنا اور دوسروں کی ضروریات سے آگاہ ہونا۔ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح ایک چھوٹے سے  خوردبینی وائرس  نے پوری دنیا کو تبدیل کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واقعتاً  صرف اس دفعہ رمضان میں انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ایک قول کے معنی کو سمجھا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “اللہ سے دعا کرو کہ وہ آپ کو روزہ رکھنے کی توفیق دے” کیونکہ ہم اپنی جسمانی صحت کو معمول کی بات سمجھتے ہیں۔ مگر ایک چھوٹے سے  وائرس  نے ہماری تمام دنیاوی طاقت کے ساتھ ہم سب کو زمین بوس کردیا ہے۔ اب کوویڈ 19 کی وجہ سے، ہمیں اپنی حقیقت کو سمجھنے کا موقع ملا ہے اور کمیونٹی لیڈر کی حیثیت سے لوگوں کو امید دینا ہمارا مشن ہونا چاہئے۔” انہوں نے کہا کہ حالیہ وبا خدا کی آزمائش نہیں بلکہ ہمارے لئے ایک چیلنج ہے کہ اس وبائی مرض کا علاج اپنے اندر تلاش کریں، کیونکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ “بیماری اور علاج دونوں ہی آپ کے اندر موجود ہیں۔”

ستارہ اٹسی:

افغان امریکی اداکارہ ستارہ اٹسی نے کورونا وائرس کے شکار افراد کے لئے ایک منٹ خاموشی سے دعا کی درخواست کی۔ پادری کین واینٹ نے کہا ، مختلف مذاہب کے درمیان معمولی فرق سے قطع نظر، تمام عقیدے رواداری کی بات کرتے ہیں۔ “سچائی بیان کرنا ہمارا روحانی حق ہونا چاہئے۔”

جیسن فیڈی:

گلوکارہ جیسن فیڈی نے اس موقع پر امن کے لئے ایک گیت گایا، جبکہ پاکستانی امریکی ہالی ووڈ اداکار، اقبال تھیبا نے رابندر ناتھ ٹیگور کی لکھی ہوئی ایک مشہور نظم “مندرکو نہ جاؤ” پڑھ کر سنائی، جو محبت، تعاون ، دھتکارے گئے اور ساتھی انسانوں کے لئے کے لئے ہمدردی کے اظہار اور معاف کردینے کے سبق پر مبنی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں