لٹل ایکٹس آف کائنڈنیس

وہ روز ایک ہی ریڑھی سے مالٹے خریدتا تھا‘ بوڑھی عورت شہر کے درمیان مالٹوں کی ریڑھی لگاتی تھی‘ عورت اور اس کی ریڑھی دونوں بوڑھی تھیں‘ عورت کے چہرے پر جھریوں کا جال تھا‘ دیکھنے میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے لٹھے کے رومال کو دھو کر سوکھنے کے لیے تار پر ڈال دیا ہو اور جب اسے اتارا ہو تو اس پر مچھلیاں پکڑنے والے جال کی طرح جھریاں ہی جھریاں ہوں‘ اس کی ریڑھی بھی ٹیڑھی اور بوسیدہ تھی اور اس کے پاس مالٹوں کی ورائٹی بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی شاید دس پندرہ درجن ہوتے ہوں گے لہٰذا گاہک اس کے قریب سے گزر کر دوسری ریڑھیوں کی طرف چلے جاتے تھے‘

دائیں بائیں ریڑھیاں اچھی بھی تھیں اور ان کے پاس فروٹ بھی زیادہ ہوتے تھے چناں چہ بوڑھی عورت کے دائیں بائیں گاہکوں کی ریل پیل ہوتی تھی جب کہ وہ خاموش کھڑی کبھی اپنی اجڑی ہوئی ریڑھی کو دیکھتی تھی اور کبھی سامنے رکھے مالٹوں کو اور وہ یعنی واپڈا کا وہ کلرک ہمیشہ اسی بوڑھی عورت سے مالٹے خریدتا تھا‘ بوڑھی عورت جس دن ریڑھی نہیں لگاتی تھی اس دن وہ خالی ہاتھ گھر چلا جاتا تھا‘ وہ کون تھا؟ وہ واپڈا میں کلرک تھا‘ سارا دن فائلوں کی بک بک میں پھنسا رہتا تھا اور شام اپنی پرانی اور تھکی ہوئی موٹر سائیکل پر گھر نکل جاتا تھا لیکن نہیں رکیے وہ راستے سے اپنی بیوی کو بھی پک کرتا تھا‘ اس کی بیگم سکول ٹیچر تھی‘ سکول کے وقت کے بعد وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی اور خاوند کا انتظار کرتی تھی‘ کلرک دفتر سے نکل کر بیوی کو لیتا تھا اور پھر دونوں گھر روانہ ہو جاتے تھے لیکن نہیں نہیں‘ یہ دونوں راستے سے مالٹے بھی خریدتے تھے اور صرف اسی بوڑھی عورت سے خریدتے تھے‘ اب مالٹے خریدنا بھی کوئی جرم نہیں تھا‘

دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ روزانہ فروٹ خریدتے ہیں لیکن اصل مسئلہ بالکل مختلف تھا‘ مالٹے خریدنے کے بعد کلرک ایک صحت مند اور بڑا مالٹا چھیلتا تھا‘ اس میں سے ایک کاش توڑ کر چکھتا تھا اور پھر پورا مالٹا بوڑھی عورت کو دے کر کہتا تھا ’’یہ کھٹا ہے‘ذرا اسے چیک کرو‘‘ بوڑھی عورت چکھتی تھی اور ہنس کر کہتی تھی ’’بائو جی یہ تو میٹھا ہے‘‘ یہ سن کر کلرک ہنستا تھا اور کہتا تھا ’’اچھا پھر یہ تم ہی کھائو‘‘ اور اس کے بعد موٹر سائیکل سٹارٹ کر گھر روانہ ہو جاتا تھا‘ بیوی روزانہ یہ کھیل دیکھتی تھی‘ اس نے ایک دن اس سے کہا ’’تم روز یہ کیا ڈرامہ کرتے ہو‘ پکا ہوا‘ میٹھا مالٹا چھیلتے ہو اور اسے بوڑھی عورت کو دے دیتے ہو‘ مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی‘‘ کلرک نے ہنس کر جواب دیا ’’تم کسی دن غور سے اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھو تمہیں اس پرغربت کے ساتھ بھوک بھی نظر آئے گی‘

اس کے پاس مالٹے کم ہوتے ہیں لہٰذا یہ اپنا پھل کھا کر چیک نہیں کرتی‘ میں دن میں صرف ایک اچھا کام کرتا ہوں‘ میں اسے ایک مالٹا کھلا دیتا ہوں‘ میں روز دیکھتا ہوں یہ جوں ہی مالٹے کی مٹھاس محسوس کرتی ہے تو ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے کی غربت پسپا ہو جاتی ہے اور وہاں اطمینان اور سکون کا ایک سایہ سا لہرا جاتا ہے‘ میں یہ سارا ڈرامہ اس ایک لمحے کے لیے کرتا ہوں ‘میں دن کے وقت چائے نہیں پیتا‘ اس کے پیسے بچاتا ہوں‘ موٹر سائیکل تیز چلا کر پٹرول کی بچت کرتا ہوں‘ تم سے دس بارہ روپے ادھار لیتا ہوں اور پھر مالٹوں کی رقم جمع کر کے یہاں آ جاتا ہوں‘ مالٹے خریدتا ہوں اور اس میں سے ایک اچھا اور میٹھا مالٹا تلاش کر کے اسے کھلا دیتا ہوں اور تم رضیہ یقین کرو‘ یہ میری سارے دن کی واحد نیکی ہوتی ہے‘‘ کلرک کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ہونٹوں سے لگا لیا‘ اسے معلوم ہی نہیں تھا اس کے گھر میں کتنا بڑا ولی پل رہا ہے۔

وہ دونوںاکٹھے واپس جاتے تھے‘ نوجوان استاد کے پاس سواری کا بندوبست نہیں تھا جب کہ اس کے کولیگ کے پاس گاڑی تھی لہٰذا وہ روز اسے ڈراپ کرتا تھا‘ ان کا معمول تھا وہ کالج سے نکلتے تھے‘ گاڑی میں بیٹھتے تھے اور گھر کے لیے روانہ ہو جاتے تھے‘ گاڑی کا مالک روزانہ محلے کی مارکیٹ میں رکتا تھا‘ گاڑی سائیڈ پر لگا کر اترتا تھا‘ چل کر دور جاتا تھا‘ زمین پر بیٹھے بوڑھے چھابڑی والے سے مرجھائی ہوئی سبزیاں خریدتا تھا اور پھر لفافے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ کر آگے چل پڑتا تھا‘ یہ روز کا معمول تھا‘روز ایک ہی جگہ رکنا‘ گاڑی سے اترنا‘ ایک ہی بوڑھے سے سبزیاں خریدنا اور پھر آگے روانہ ہو جانا‘ نوجوان استاد یہ منظر روز دیکھتا تھا‘ ایک دن اس سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنے سینئر کولیگ سے پوچھ لیا ’’سر آپ اتنی سبزیوں کا کیا کرتے ہیں؟‘‘ کولیگ نے ہنس کر جواب دیا ’’ہم یہ پکاتے ہیں اور کھاتے ہیں‘‘ جونیئر استاد کا اگلا سوال تھا ’’میری معلومات کے مطابق آپ صرف دو میاں بیوی ہیں‘ کیا آپ دونوں روزانہ اتنی سبزیاں کھا جاتے ہیں؟‘‘ کولیگ نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’ہرگز نہیں‘ میں آدھی سبزیاں محلے میں تقسیم کردیتا ہوں‘ ہمارے دائیں بائیں بہت لوگ رہتے ہیں اور انہیں بھی سبزیاں چاہیے ہوتی ہیں لہٰذا میری بیوی یہ ان میں تقسیم کر دیتی ہے‘‘ پوچھنے والے کی حیرت میں اضافہ ہو گیا اور اس نے پوچھا ’’لیکن آپ صرف ایک ہی بوڑھے شخص سے سبزیاں کیوں خریدتے ہیں؟ پوری مارکیٹ دکان داروں سے بھری ہے‘

ان سب کے پاس زیادہ ورائٹی ہے مگر آپ انہیں چھوڑ کر دور جاتے ہیں اور نیچے بیٹھ کر اس بوڑھے سے خریداری کرتے ہیں جسے نظر بھی نہیں آتا اور جس سے سبزیاں تولی بھی نہیں جاتیں‘‘ کولیگ نے قہقہہ لگایا‘ تھوڑی دیر رکا اور پھر مسکرا کر بولا’’ میں اسی لیے اس بوڑھے کے پاس جاتا ہوںکہ اس کے پاس سبزیاں بھی کم ہوتی ہیں اور گاہک بھی‘ میں اس کا واحد گاہک ہوتا ہوں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے میں جس دن اس کے پاس نہیں آئوں گا یہ اس دن شاید خالی ہاتھ گھر واپس جائے گا‘ پورے بازار میں اس کا کوئی خریدار نہیں ہوتا‘ یہ بھری دکانوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر چپ چاپ خریداروں کا انتظار کرتا ہے لہٰذا میں اس کے پاس چلا جاتا ہوں اور اس کی ساری سبزی خرید لیتا ہوں‘‘ جونیئر استاد نے حیرت سے یہ داستان سنی اور پھر پوچھا ’’اس سے کیا فرق پڑ جاتا ہے؟‘‘ سینئر کولیگ نے سنجیدگی سے جواب دیا ’’میری زندگی میں شاید کوئی فرق نہیں پڑتا‘ میں کسی بھی جگہ سے سبزی خرید سکتا ہوں لیکن میری اس چھوٹی سی کوشش سے اس بوڑھے کی زندگی میں بہت فرق پڑ جاتا ہے‘ یہ اور اس کی بیوی دونوں اکیلے رہتے ہیں‘ اس کی بہو اوربیٹے کا ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تھا‘

بیوی بیمار ہے‘ یہ روز بیوی کو پیمپر پہنا کر منڈی جاتا ہے‘ سبزی لاتا اور چپ چاپ یہاں بیٹھ جاتا ہے‘ سبزی بک جاتی ہے تو تین چار سو روپے لے کر گھر چلا جاتا ہے‘ کھانا بناتا ہے‘ بیوی کو نہلاتا اور پھر دونوں مل کر کھانا کھاتے ہیں‘ میں ان دونوں کی زندگی تبدیل نہیں کر سکتا‘ میں ان کے دکھ بھی کم نہیں کر سکتا لیکن میں اس کی سبزی خرید کر اسے جلدی گھر ضرور بھجوا سکتا ہوں اور میں یہ روز کرتا ہوں‘ شاید اللہ تعالیٰ کو میری یہ چھوٹی سی خفیہ نیکی پسند آ جائے‘‘ جونیئر استاد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے سینئر کولیگ کا ہاتھ پکڑا اور اسے پاگلوں کی طرح چومنے لگا‘ اس کے سامنے بھی ایک ولی بیٹھا ہوا تھا۔

ہم بلیو ایریا سے گزر رہے تھے‘ ہمارے سامنے چوک میں بھکاری بچوں کا پورا لشکر کھڑا تھا‘ میرے دوست نے شرمندگی سے میری طرف دیکھا اور لجاجت سے کہا ’’آپ اگر اجازت دیں تو میں پانچ منٹ میں نماز پڑھ لوں‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’سر کیوں نہیں؟ ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے‘‘ اس نے ڈرائیور کو اشارہ کر دیا‘ ڈرائیور نے سگنل کراس کر کے گاڑی کھڑی کر دی‘ وہ گاڑی سے اترا‘ کوٹ اتار کر سیٹ پر رکھا‘ ڈکی کھولی‘ اس میں سے کریٹ نکال کرفٹ پاتھ پر رکھا اور اونچی آواز میں بھکاری بچوں کو آوازیں دینے لگا‘ ایک بچے کی نظر اس پر پڑی‘ اس نے اونچی آواز میں دوسرے بھکاری بچوں کو اسکی طرف متوجہ کیا اور اس کے بعد تمام بچوں نے گاڑی کی طرف دوڑ لگا دی اور پھر چند لمحوں میں میرا دوست بھکاری بچوںمیں گھر چکا تھا‘ اس کے دائیں بائیں تین چار درجن بچے تھے اور وہ سب اونچی آواز میں قہقہے لگا رہے تھے اور اسے بار بار کہہ رہے تھے ’’چچا آج تم مجھے دو برگر دو گے‘‘ میرے دوست نے کریٹ کھولا اور اس میں سے برگر نکال کر انہیں دینے لگا‘ تمام بچوں کو برگر مل گیا‘ اس کے بعد اس نے انہیں دودھ کی بوتلیں دے دیں‘

بچے کھڑے ہو کر برگر کھانے اور دودھ پینے لگے‘ وہ قہقہے لگا رہے تھے اور وہ اطمینان سے ان کے درمیان کھڑا تھا جب کہ میں گاڑی کے شیشے سے حیرت سے انہیں دیکھ رہا تھا‘ بچے شاید بھوکے تھے‘ انہوں نے دس منٹ میں برگر اور دودھ کی بوتلیں صاف کر دیں‘ اس نے اطمینان سے برگر کے ریپرز اور دودھ کی خالی بوتلیں اکٹھی کیں‘ کریٹ میں رکھیں اور ڈرائیور نے کریٹ اٹھا کر ڈکی میں رکھ دیا‘ وہ گاڑی میں واپس آیا اور ہم آگے روانہ ہو گئے‘ میں نے اس سے پوچھا ’’یہ کیا تھا؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’یہ میری چھٹی نماز ہے‘ میں پانچ نمازوں کے ساتھ روزانہ یہ نماز بھی پڑھتاہوں‘ دس بیس تیس برگرز بنواتا ہوں‘ اتنی ہی دودھ کی بوتلیں لیتا ہوں اور کسی ایسے چوک میں جہاں بھکاری بچے زیادہ ہوتے ہیں میں یہ سامان ان میں تقسیم کر دیتا ہوں‘ انہیں اپنے سامنے کھلاتا پلاتا ہوں اوراللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں یا باری تعالیٰ مجھے اسی طرح توفیق دیتے رہو تاکہ میں اپنی اوقات کے مطابق تمہارے لوگوں کی خدمت کرسکوں اور اس کے بعد گھر واپس چلا جاتا ہوں‘‘ میں نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے چوم لیا‘میں بھی اس وقت ایک ولی کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔

نوٹ:ہمارا گروپ 20اگست کو چترال(کیلاش) جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

The post لٹل ایکٹس آف کائنڈنیس appeared first on Javed Chaudhry Columns.

Source link
javedch.com

اپنا تبصرہ بھیجیں