blank

چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کیوں کی گئی؟ عدالت نے جواب طلب کر لی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے خلاف سائفر کیس کی سماعت اسلام آباد سے اٹک جیل منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست پر وزارت قانون و انصاف اور دیگر مدعا علیہان سے جواب طلب کر لیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔

درخواست میں چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالت منتقلی کے وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے خلاف درخواست دائر کی جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے اعتراضات کے ساتھ سماعت کی۔

عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے مؤقف اپنایا کہ ہماری درخواست پر دو اعتراضات عائد کیے گئے ہیں، اعتراض ہے کہ ہم نے ایک ہی درخواست میں ایک سے زیادہ استدعا کیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میں اعتراضات دور کر دیتا ہوں، آپ میرٹ پر دلائل دیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت کا مقام تبدیل کیا گیا ہے؟ وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیسز کی متعلقہ عدالت مجسٹریٹ کی ہے، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کا اختیار دینا غلط ہے۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ استدعا ہے کہ نوٹس جاری کر کے اس پر بھی جواب طلب کر لیا جائے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں آپ کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیتا ہوں، شیر افضل مروت نےکہا کہ یہ جلدی والا معاملہ ہے تو کیس آئندہ ہفتے دوبارہ مقرر کر دیا جائے۔

2 روز قبل یعنی 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یاد رہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج سائفر کیس کی سماعت کے لیے حال ہی میں ملکی تاریخ کی پہلی خصوصی عدالت اسلام آباد میں قائم کی گئی تھی۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔

سابق وزیراعظم توشہ خانہ کیس میں 5 اگست کو گرفتاری کے بعد سے اٹک جیل میں قید ہیں۔

گزشتہ روز اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کردی تھی جس کے چند گھنٹے بعد ہی سابق وزیر اعظم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج اور کیس کی اٹک منتقلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، آئی جی، ڈی جی ایف آئی اے، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اور سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو درخواست میں فریق بنایا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے وفاقی وزارت قانون کی جانب سے عدالت اٹک جیل منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن چیلنج کیا اور درخواست میں عدالت سے استدعا کی کہ عدالت اٹک جیل میں منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن غیر قانونی ہے لہٰذا کالعدم قرار دیا جائے۔

انہوں نے انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ون کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا اختیار سماعت بھی چیلنج کیا اور کہا کہ انسداد دہشت گری عدالت ون کے جج اس معاملے میں مطلوبہ اہلیت کے بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔

یاد رہے کہ رواں ماہ ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی، وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، رہنما اسد عمر کو سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کرتے ہوئے 19 اگست کو شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا، سابق وزیر خارجہ تاحال اس کیس میں جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں درج کی گئی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیرمجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے امریکی ویب سائٹ انٹرسیپٹ نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ دستاویز اس سے موصول ہوئی ہے اور اس سے شائع بھی کیا گیا تھا جبکہ سابق وزیراعظم نے ان کی حکومت کے خاتمے سے چند روز قبل ہی اس دستاویز کو عوامی اجتماع میں لہرایا تھا۔

ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا ہے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیرقانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ایف آئی اے اس وقت اٹک جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے سفارتی سائفر کی گمشدگی پر تحقیقات کر رہی ہے، جس کو انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے ’بیرونی سازش‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔


install suchtv android app on google app store

Source link
www.suchtv.pk

اپنا تبصرہ بھیجیں