blank

گراس میرکے ڈیفوڈلز

وہ چار بھائی اور ایک بہن تھے‘ والدین کا انتقال ہو گیا اور رشتے داروں نے انہیں آپس میں تقسیم کر لیا‘ ولیم کو اپنی بہن ڈورتھی سے بے تحاشا پیار تھا‘ ڈورتھی کوان کا ایک انکل لے گیا‘ ولیم بیس سال اپنی بہن کو یاد کرتا رہا اور روتا رہا‘ اس یاد‘اس رونے نے اسے شاعر بنا دیا‘ وہ بہن کو یاد کرتا تھا اور گیت لکھتا تھا‘ اس کی قسمت اچھی تھی وہ آناٹائی سن کے حصے آ گیا‘ آنا ٹائی سن ایک مہربانی‘ ہمدرد اور پڑھی لکھی خاتون تھی‘ وہ ہاک شیڈ (Hawkshead) میں رہتی تھی‘ آنا ٹائی سن کے گھر کے نزدیک سکول تھا‘ علاقے کے متمول لوگوں نے یہ سکول 1585ء میں بنایا تھا اور وہ سوا دو سو سال سے چل رہا تھا‘ سکول کا بندوبست چرچ کے پاس تھا‘ ایک کمرے کے اس سکول نے ولیم کے سوزوگداز کو آگ لگا دی اور وہ اندر سے پکتا چلا گیا‘ وہ ذہین بھی تھا اور حساس بھی‘ یہ دونوں خوبیاں اسے کتابوں کی دنیا میں لے گئیں‘ چرچ کا کتب خانہ وسیع تھا چناں چہ وہ اپنا زیادہ وقت لائبریری میں گزارتا تھا‘ مطالعے نے اس کی ذہانت کو متانت میں تبدیل کر دیا اور وہ ہاک شیڈ گرائمر سکول سے سیدھا کیمبرج کے جان کالج پہنچ گیا‘ تعلیم مکمل کی‘ تھوڑی سی رقم کمائی اور سیدھا اپنی بہن ڈورتھی کے پاس واپس آ گیا‘ ڈورتھی اس وقت شادی شدہ تھی مگر اس کی خاوند کے ساتھ بنتی نہیں تھی‘ ولیم نے ڈورتھی کو ساتھ لیا اور دونوں گراس میر (Grasmere) آ گئے۔

گراس میر میں ان کا کوئی گھر نہیں تھا‘ دونوں اپنے ایک دوست کے بیٹے کے گھر رہنے لگے‘ پھر یہ ڈورسٹ اور سمرسٹ میں کرائے دار ہو گئے (یہ گھروں کے نام ہیں)‘ ولیم کو کرائے دار تنگ کرتے رہتے تھے‘ وہ کبھی ایک گھر میں رہتا تھا اور کبھی دوسرے میں‘ شاعر اور لکھاری تھا‘ آمدنی محدود تھی مگر وہ مشہور ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن مالک مکان کو اس کی شہرت سے کوئی غرض نہیں تھی لہٰذا اس کی اقامت کا مسئلہ مرنے تک جاری رہا‘ اس دوران اسے ایک ایسے گھر میں بھی رہنا پڑا (Allen Bank) جس میں شدید سردی اور نمی تھی‘ سردی اور نمی کی وجہ سے اس کے دو بچے انتقال کر گئے‘ اس صدمے نے اسے مزید دکھی کر دیا‘ اس کے گھر کے قریب ایک شوریدہ سر ندی تھی‘ ندی کا ساز دن رات بجتا رہتا تھا‘ سامنے ایک انتہائی خوب صورت وسیع جھیل تھی اوراس کے دائیں بائیں سرسبزو شاداب پہاڑ تھے‘ گراس میر بنیادی طور پر پہاڑی گائوں تھا (آج بھی ہے) آبادی کم تھی‘ زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے یا پھر پھل فروش تھے‘ ولیم کے گھر کے ساتھ ہی پرانا چرچ تھا‘ پادریوں کو اس سے خدا واسطے کا بیر تھا‘ وہ اسے دیکھ کر برا سا منہ بناتے تھے‘ وہ بھی ان سے پرہیز کرتا تھا مگر اس کے باوجود اس کا پادری اور اس کے چیلوں سے روزانہ ٹاکرا ہو تا تھا‘ کیوں؟ وجہ بہت دل چسپ تھی‘ چرچ کے گرد خوب صورت قدرتی گارڈن تھا‘ ولیم کی اس گارڈن میں جان اٹکی ہوئی تھی‘ وہ جب بھی گارڈن میں بیٹھتا تھا اس پر آسمان سے قطار اندر قطار مصرعے اترنے لگتے تھے چناں چہ وہ روز چرچ نہ جانے کا فیصلہ کرتا تھا مگر شاعری اسے کھینچ کر دوبارہ وہاں لے جاتی تھی‘ گارڈن کا ایک کنارہ چٹان سے نکل کر ندی تک چلا گیا تھا‘ یہ ولیم کا پسندیدہ ترین مقام تھا‘ وہ روز وہاں بیٹھتا تھا اور روزوہاں شعر کہتا تھا۔

ولیم کا اپنی بہن ڈورتھی سے جنم جنم کا رشتہ تھا‘ وہ کائنات کی واحد ہستی تھی جو اسے مکمل طور پر سمجھتی تھی اور وہ سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتی تھی‘ اس کے ساتھ ہنستی تھی اور اس کے ساتھ روتی تھی‘ ولیم مانتا تھا’’ اگر میرے ساتھ ڈورتھی نہ ہوتی تو شاید میں‘ میں نہ ہوتا‘‘ وہ ایک دن چرچ کے گارڈن میں ندی کے قریب پتھر کے بینچ پر بیٹھا تھا‘ ندی کے پانی نے کنارہ کاٹ کر چھوٹا سا تالاب بنا دیاتھا اور اس تالاب میں نرگس (Daffodil) کے پھول کھلے تھے‘ تالاب‘ ندی کا کنارہ‘ نرگس کے پھول‘ چرچ کی پتھریلی عمارت‘ بیل ٹاور کی تین گھنٹیاں اور سامنے دور دور تک پھیلی جھیل ولیم کی روح جھوم اٹھی اور اس نے تخلیقی لمحے میں وہ ملکوتی نظم تخلیق کر دی جس نے اس ندی‘ اس تالاب‘ اس بینچ‘ اس چرچ‘ اس جھیل گراس میر کے بے رحم مالک مکان اور پھر پورے علاقے کو دائمی بنا دیا‘ اسے لٹریچر کا ویٹی کن بنا دیا‘ آج اس واقعے کو219سال گزر چکے ہیں مگر آج تک پوری دنیا سے ولیم ورڈز ورتھ کے چاہنے والے گراس میر کے اس چرچ میں آتے ہیں‘ گارڈن میں جاتے ہیں اور اس بینچ کو چوم کر اسے سلام پیش کرتے ہیں جس پر بیٹھ کر اس نے ’’ڈیفوڈلز‘‘ لکھی تھی‘ آپ شعر کا کمال دیکھیے‘ 24مصرعوں کی اس نظم نے لیک ڈسٹرکٹ کو پوری دنیا میں مشہور کر دیا اور یہ علاقہ اس نظم کے صدقے ہر سال ڈیڑھ بلین پائونڈز کماتا ہے‘ ہر سال یہاں 18ملین سیاح آتے ہیں اور ورڈز ورتھ کے نرگسی پھولوں کی فضا میں سانس لے کر قدرت کا شکر ادا کرتے ہیں‘ آپ اس نظم کا کمال دیکھیے‘ اس کی وجہ سے وہ چرچ بھی مشہور ہو گیا جس کا پادری ولیم ورڈز ورتھ کو دیکھ کر برا سا منہ بناتا تھا‘ وہ مکان بھی تاریخی ہو گئے جن سے اسے کرایہ نہ دینے کی وجہ سے نکال دیا جاتا تھا اور وہ ٹائون بھی تاریخی بن گیا جس سے وہ پوری زندگی نکلنا چاہتا تھا۔

میں 23 ستمبر2023ء کو لیک ڈسٹرکٹ پہنچا‘ ہمارا گروپ یو کے آیا ہوا تھا‘ میں نے اسے مانچسٹر میں جوائن کیا‘ ہم لیور پول میں ایک رات گزار کر لیک ڈسٹرکٹ آ گئے‘ لیک ڈسٹرکٹ برطانیہ کے شمال مغرب میں کمبرلینڈ(Cumberland) میں ایک وسیع پہاڑی علاقہ ہے‘ یہاں روزانہ بارش ہوتی ہے اور پہاڑوں سے ہزاروں ندیاں‘ نالے اور آب شاریں نکلتی ہیں‘ آب شاروں کے پانیوں نے علاقے میں 16جھیلیں تخلیق کر دی ہیں‘ ان جھیلوں کے گرددرجنوںگائوں‘ ٹائونز اور شہر ہیں اور یہ پورا علاقہ جھیلوں کی وجہ سے لیک ڈسٹرکٹ کہلاتا ہے‘ لوگ اسے برطانیہ کا سوئٹزر لینڈ بھی کہتے ہیں‘ پتھر کے اولڈ سٹائل گھر ہیں‘ ہر گھر میں ہوٹل بن چکا ہے‘ ایک آدھ کمرے میں مالک مکان رہتا ہے اور باقی کمرے کرائے پر چڑھا دیے جاتے ہیں‘ گھروں میں کیفے اور ریستوران ہیں‘ گلیاں پتھریلی اور صاف ستھری ہیں‘ بارشوں کی وجہ سے فضا نکھری اور صاف ستھری رہتی ہے‘ کیسویک (Keswick) سب سے بڑا قصبہ ہے یہاں تک ٹرین بھی آتی ہے‘ گراس میر اور کمبرلینڈولیم ورڈز ورتھ کی وجہ سے مشہور ہیں‘ ہم سب سے پہلے امیبل سائٹ کے گائوں یاواک شیڈ گئے‘ یہ پانچ سو نفوس کا خوب صورت گائوں ہے‘ ولیم ورڈز ورتھ نے اس کے سکول میں تعلیم حاصل کی تھی‘ یہ ایک کمرے کا چھوٹا سا سکول تھا جس کے بینچ اور دیواریں پانچ سو سال پرانی ہیں‘ چرچ ذرا بلندی پر ہے اور اس کے گرد علاقے کے مشاہیر کی قبریں ہیں‘ گائوں پہاڑی کے نیچے ہے اور یہ چرچ کی چاروں سائیڈز سے نظر آتا ہے‘ہم وہاں پہنچے تو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور اس بارش میں چرچ اور سکول دونوں ورڈز ورتھ کی نظموں کی طرح نم اور قدرتی محسوس ہو رہے تھے‘

ہماری دوسری منزل جان رسکن (Ruskin) کا گائوں کنسٹن (Coniston) تھا‘ رسکن اپنے زمانے کا بہت بڑا دانشور تھا‘ اس نے سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید شروع کی‘ اس نے جدید دنیا میں مفت تعلیم‘ سرکاری سطح پر مفت علاج‘ ویلفیئر سٹیٹ اور پبلک لائبریریوں کا تصور دیا تھا‘ وہ کنسٹن میں چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا‘ اس کے شاگرد اور فین پورے یورپ میں بکھرے ہوئے تھے‘ وہ کنسٹن آتے تھے اور اس کے گھر کے گرد خیمے لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور ہفتوں اس سے فیض حاصل کرتے تھے‘ رسکن کا گھر بھی پتھریلا تھا اور اس سے کنسٹن جھیل نظر آتی تھی‘ یہ اب میوزیم بن چکا ہے جب کہ اس کے مہمان خانے کو کافی ہائوس میں تبدیل کر دیا گیا‘ اس کے گارڈن سے ندی گزرتی ہے اور کمال کر دیتی ہے‘ رسکن کو ماحولیات کا پیغمبر بھی کہا جاتا تھا اور یہ خطاب غلط نہیں تھا کیوں کہ اس نے آج سے ڈیڑھ سو سے سال پہلے ماحولیات کے تحفظ کی بات کی تھی‘ رسکن نے برطانیہ کو نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) کا تصور بھی دیا تھا‘ ہماری دوپہر رسکن کے گھر اور کافی شاپ میں گزری‘ بارش ہو رہی تھی مگر میں نے اس کے باوجود اس کے پہاڑی گارڈن کا چکر لگایا‘ وہاں سے جھیل اور اس کے گھر کا منظر دونوں پینٹنگ لگتے تھے‘ جان رسکن کے گھر تک پہنچنا ناممکن تھا مگر ہمارے بس ڈرائیور راجہ ارشد حیران کن کردار تھے‘ ہم نے گوروں کی کمپنی سے ٹوریسٹ بس کرائے پر لی تھی لیکن خوش قسمتی سے ہمیں ڈرائیور پاکستانی ملا تھا‘ راجہ ارشد جہلم کے رہنے والے ہیں لیکن رنگ روپ سے پورے گورے دکھائی دیتے ہیں‘ سرخ و سفید رنگ اور جان دار پرسنیلٹی‘ ہم ان کی 30 سال کی سروس کا پہلا پاکستانی گروپ تھے لہٰذا ان کے پائوں زمین پر نہیں لگ رہے تھے اور وہ ہمیں وہاں بھی لے گئے جہاں آج تک بس نہیں پہنچ سکی تھی اور جان رسکن کا گھر بھی اس میں شامل تھا‘ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں راجہ ارشد نے بس کو وہاں بھی چڑھا دیا جہاں تک کھوتا بھی نہیںجا سکتا تھا۔

جان رسکن کے گھر کے بعد ورڈز ورتھ کا گراس میر ہماری منزل تھا‘ ہم نے لیک گراس میر کا لمبا چکر لگایا اور اس کے بعد اس چرچ کے سامنے پہنچ گئے جسے ورڈز ورتھ نے عالمی شہرت دے دی‘ ورڈز ورتھ نے چرچ کے گارڈن میں دو درخت لگائے تھے‘ وہ‘ اس کی بہن اور اس کا پورا خاندان درختوں کے نیچے مدفون ہیں‘ درختوں کی شاخیں ہر وقت اس کی قبر پر سایہ فگن رہتی ہیں‘ قبروں کے ساتھ ایک چھوٹا سا راستہ اس ندی اور ندی کے کنارے پڑے اس بینچ تک جاتا ہے جس پر اس کی تخلیق کا اہم ترین وقت گزرا تھا‘ ڈیفوڈلز بھی اس نے اسی بینچ پر بیٹھ کر تحریر کی تھی‘ بینچ کے سامنے پتھر کا دائرہ سا تھا اور اس دائرے میں ڈیفوڈلز کا ایک حصہ درج تھا‘ ندی آرکسٹرا بجاتی ہوئی اس کے قریب سے گزر رہی تھی‘ دائیں بائیں درخت اور جھاڑیاں تھیں‘ ان کے نیچے یقینا نرگس کے پھول کھلتے ہوں گے مگر اس وقت وہاں کوئی پھول نہیں تھا‘ پادری اور اس کے چیلے اسے اس بینچ پر نہیں بیٹھنے دیتے تھے لیکن آپ اس دکھی شاعر پر قدرت کا کرم دیکھیے‘ دنیا جہاں کے شاعروں‘ دانشوروں اور نثرنگاروں نے پتھروں پر اپنے نام لکھوا کر انہیں اس راستے پر لگوا دیا جو ورڈز ورتھ کے بینچ کی طرف جاتا ہے اور دنیا جہاں کے سیاح ان عالمی دانشوروں کے ناموں کے اوپر سے گزر کر اس بینچ تک جاتے ہیں جہاں ورڈز ورتھ کی گرم دوپہریں اور سردیوں کی شامیں گزرتی تھیں‘ بینچ کی دوسری طرف ندی کے پار اس کا وہ گھر تھا جہاں وہ کرائے پر رہتا تھا اور کرایہ دار ہمیشہ اس سے نالاں رہتا تھا‘ وہ مکان اب کافی شاپ تھا اور اس کا بیک ٹیرس گارڈن کی طرف کھلتا تھا‘ ٹیرس پر ہر وقت شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے‘ وہ وہاں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور ندی کی دوسری طرف ورڈز ورتھ کے بینچ کو حسرت سے دیکھتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں یا پروردگار ہمیں بھی ایک ایسی نظم عنایت کر دو جو ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے پورے علاقے کو بھی زمان و مکان سے آزاد کر دے‘ جو ہمیں ورڈز ورتھ اور ہمارے شہر کو گراس میر بنا دے۔

موضوعات:

Source link
javedch.com

اپنا تبصرہ بھیجیں