blank

ڈچ سائنسدان کی پاکستان میں آئندہ دو روز میں طاقتور زلزلے کی پیشگوئی

 لاہور(ویب ڈیسک)بلوچستان میں زیرِ زمین چمن فالٹ لائن میں تیز لرزش ریکارڈ کی گئی ہے اور اس علاقے میں اگلے دو دن میں کوئی طاقتور زلزلہ آ سکتا ہے، ڈچ سائنسدان نے پاکستان میں آئندہ دو روز میں طاقتور زلزلے کی پیشگوئی کر دی۔

 ایس ایس جی ایس کے سروے کے مطابق بلوچستان میں زیرِ زمین چمن فالٹ لائن میں تیز لرزش ریکارڈ کی گئی ہے اور اس علاقے میں اگلے دو دن میں کوئی طاقتور زلزلہ آ سکتا ہے۔ زلزلہ پیما ریسرچ انسٹیٹیوٹ سولر سسٹم جیومیٹری سروے میں بتایا گیا ہے کہ سمندر کے قریب فضا میں برقی چارج کے اتار چڑھاؤ کو ریکارڈ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے نقشے میں جامنی رنگ والے علاقوں میں آئندہ چند روز میں طاقتور زلزلہ آ سکتا ہے۔ایس ایس جی ایس نے چمن فالٹ لائن کو انتہائی طاقتور ممکنہ زلزلہ کا ریجن قرار دیا ہے۔ ایس ایس جی ایس کے مطابق واضح کردہ یہ علاقے صرف ایک تخمینہ ہیں اور درست مقامات کا تعین کرنے کا فی الحال کوئی قابل اعتماد طریقہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ رواں سال ریسرچ انسٹیٹیوٹ سولر سسٹم جیومیٹری سروے کےسربراہ فرینک ہوگر بیٹس نے 3 فروری کو ایک ٹوئٹ کی تھی اور بتایا تھا کہ جلد یا بدیر جنوبی وسطی ترکیہ، اردن، شام اور لبنان میں 7 اعشاریہ 5 شدت کا زلزلہ آئے گا، ان کی زلزلے سے متعلق پیشگوئی 3 روز بعد ہی سچ ثابت ہوئی تھی۔

ترکیہ اور شام میں 6 فروری کو شدید ترین زلزلہ آیا تھا جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں زخمی ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ ترکیہ اور شام میں آنے والے قیامت خیز زلزلے سے ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی کی سائنسی وجوہات سامنے آگئی ہیں۔ زلزلے کے بعد سے ہی دنیا بھر کے ماہرین زلزلے کی شدت اور اس سے ہونیوالی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کو تباہی کے اسباب پر غور کر رہے تھے۔

ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ 6 فروری کو سب سے پہلے سب سے پہلے جنوبی ترکیہ اور شمالی شام سے صرف 12 میل دور دو بڑی ٹیکٹونک پلیٹیں ایک دوسرے پر پھسلیں اور اس سے 7.8 شدت کا زلزلہ رونما ہوا جو ترکیہ کی 80 سالہ تاریخ کا سب سے ہولناک زلزلہ بھی تھا۔ لیکن اس کے 9 گھنٹے بعد 7.5 شدت کے دوسرے زلزلے نے اسی علاقے کو دہلا دیا اور یوں ہلاکت خیز مزید بڑھ گئی۔

اس زلزلے کا مرکزمشہور شہر غازیان تپ تھا جہاں پہلے ہی ہزاروں شامی پناہ گزین مقیم ہیں جو تباہ شدہ شامی شہر حلب سے یہاں پہنچے تھے۔ یو ایس جیولوجیکل سروے  کے مطابق اس خطے میں قائم عمارتوں کی تعمیر میں کسی بھی قسم کے بلڈنگ کوڈ کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے غیرمعمولی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تاہم زلزلوں کی ماہر اور بوسٹن یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر راشیل ایبر کرومبی یو ایس جیولوجیکل سروے کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر عمارتیں بین الاقوامی زلزلے کے کوڈ کے تحت بھی بنائی جاتیں تب بھی اس تباہی میں معمولی ہی کمی واقع ہوتی کیونکہ زلزلہ بہت شدید اور اس کا مرکز کم گہرا تھا۔

Source link
hassannisar.pk

اپنا تبصرہ بھیجیں