blank

اس 10 سالہ ولی اللہ کا تذکرہ جنکے والد نے انکی وفات کی دعا کی اور اللہ نے قبول کر لی

نامور خاتون کالم نگار ڈاکٹر صغریٰ صدف اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔آج ہم جس ولی کی بات کریں گے وہ بھی ایک ایسی ہستی ہیں جن کا تذکرہ ہم اکثر سنتے ہیں۔ حضرت سید بہاؤ الدین جھولن شاہ بخاری المعروف حضرت گھوڑے شاہ پیدائشی ولی تھے۔آبائواجداد کی روحانیت

اور درویشی سے گہری جڑت تھی اور اس خاندان پر خدا کا خاص کرم ہے۔ ولایت وراثت میں نہیں ملتی لیکن بزرگوں میں ولی ہو تو اس کا اثر نور کی کرنیں بن کر شخصیت کو جگمگاتا ہے۔ حضرت گھوڑے شاہ کے دادا حضرت سید عثمان المعروف شاہ جھولہ بخاری وقت کے بہت بڑے ولی تھے۔ ان کا شجرہ نسب آٹھ سلسلوں سے حضرت مخدوم سید جلال الدین بخاری تک پہنچتا ہے۔ سہروردیہ سلسلے سے تعلق رکھنے والے شاہ جھولہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بار اونٹ پر سوار ہو کر لاہور جاتے ہوئے ان کا بازو مسلسل اونٹ کو ہانکنے کے باعث کچھ تھکن اور کمزوری کا شکار ہوا تو انھوں نے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کیا تجھے جھولہ یعنی رعشہ ہو گیا ہے،انکے لبوں سے نکلی بات چند لمحوں میں حقیقت بنی اور رعشہ موت تک باقی رہا۔ان کا مزار، شیخ حسینی اور پنج پِیر کے نام سے معروف ہے۔شاہی قلعہ کی تعمیر سے قبل یہ علاقہ لاہور کی آبادی میں شامل تھا۔یہیں شاہ جھولہ کو دفن کیا گیا۔ اب ان کا مزار شاہی قلعے کے تہہ خانے میں ہے۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سید شاہ محمد ان کی مسند پر بیٹھ کر سماج کو خیر کی جانب راغب کرتے رہے وہ خود بھی ایک صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔ایک بار کلانور جاتے ہوئے رستے میں پڑاؤ کیا۔ہندو زمیندار سارنگ نے جانوروں کو پانی پلانے کی اجازت نہ دی۔جب شاہ محمد کو یہ خبر دی گئی تو انھوں نے جلال میں نیزا زمین پر مارا، جہاں چشمہ جاری ہو گیا۔

ان کے چار بیٹوں کے نام اندرون شہر کے کئی علاقوں کے ناموں کی صورت آج بھی پکارے جاتے ہیں۔ابھی حضرت گھوڑے شاہ کی عمر دو تین برس کی تھی کہ کرامتوں کا ظہور ہونے لگا۔ان کی کہی باتیں بارگاہ ایزدی میں منظور ہونے لگیں۔معصوم ولی کو مٹی کے بنے گھوڑوں سے کھیلنا بہت پسند تھا۔ ولایت کی خبر عام ہونے کے بعد اپنی خواہشات کی تکمیل اور درد کے مداوے کی تمنا لے کر آنے والے حاجت مند مٹی کا بنا کھلونا گھوڑا عقیدتاً آپ کی خدمت میں پیش کرتے اور دعائے خیر کی استدعا کرتے۔اسی مناسبت سے لوگ انھیں گھوڑے شاہ کے نام سے پکارنے لگے جو امر ہوتا گیا۔جب دور دور تک یہ خبرپھیل گئی کہ گھوڑوں سے کھیلنے والے بچے کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اسے راز کی باتیں معلوم ہیں تو ان کے والد سید شاہ محمد نے شدید اظہارناپسندیدگی کیا مگر بچے کو قائل کرنا اور روحانی اسرار ظاہر نہ کرنے پر راضی کرنا مشکل تھا۔ اس لئے خدا سے دعا کی کہ یہ بچہ وہ راز ظاہر کرنے لگا ہے جن کی اولیاء پردہ پوشی کرتے آئے ہیں۔میں اسے باز نہیں رکھ سکتا،اس کی وجہ سے دین کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لوگوں کے اعتقادات کو ٹھیس لگ سکتی ہے اسلئے اپنے اِس خاص بندے کو اپنے پاس واپس بلا لے۔ والد کی دعا قبول ہوئی اور دس برس کی عمر میں میں اس ولی کا انتقال ہوا جس کی شہرت ہندوستان کے حاکم جلال الدین محمد اکبر کے دربار تک پہنچ چکی تھی۔ جس جگہ ان کا دربار ہے وہ سڑک آج بھی حضرت گھوڑے شاہ کے نام سے موسوم ہے اور لوگ آج بھی ان سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں

Source link
hassannisar.pk

اپنا تبصرہ بھیجیں