blank

محمد زبیر کے شکوے

محمد زبیر کے والد غلام عمر فوج میں میجر جنرل تھے‘ زبیر صاحب ایم بی اے کے بعد کارپوریٹ ورلڈ میں داخل ہوئے اور آئی بی ایم کے مڈل ایسٹ اور افریقہ کے چیف آپریٹنگ آفیسر بن گئے‘ 2012ء میں مسلم لیگ ن جوائن کی اور2013ء کی حکومت میں نج کاری کمیشن اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کے چیئرمین اور سندھ کے گورنر بن گئے‘ یہ پانامہ کیس‘ میاں نواز شریف کی سزا اور پھر جلاوطنی کے دوران جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید سے رابطے میں تھے اور بطور ایلچی کام کرتے رہے‘ پیغام رسانی کے اس عمل میں ان کا ’’سیاسی قتل‘‘ ہو گیا اور پارٹی نے انہیں عملاً کارنر کر دیا۔

محمد زبیر نے چند دن قبل مجھ سے رابطہ کیا اور جنرل باجوہ اور میاں نواز شریف کے رابطوں سے متعلق کچھ حقائق بیان کیے‘ میں سٹوری کے چند حصوں سے واقف تھا چناں چہ گفتگو کے دوران میں ان سے سوال کرتا رہا اوریہ نہایت ایمان داری سے جواب دیتے رہے‘ میں گفتگو کا ایک حصہ ان کی رضا مندی سے تحریر کر رہا ہوں۔محمد زبیر کا کہنا تھا میاں نواز شریف نے مجھے بہت عزت دی‘ دو اہم ترین اداروں کا چیئرمین اور گورنر سندھ بنایا‘ میں جب نج کاری کمیشن کا چیئرمین تھا تو بلین ڈالر کی نج کاری ہوئی‘ میں ملین ملین ڈالر کے فنانشل ایڈوائزر ہائیر کرتا تھا لیکن نواز شریف نے مجھے کسی کام سے روکا اور نہ کسی کی سفارش کی لہٰذا میں دل سے ان کا احسان مند ہوں اور ان کے احسانات اور عزت کی وجہ سے آج تک پارٹی میں ہوں‘ مجھے 2018ء میں پارٹی چھوڑنے اور نئی حکومت میں اہم پوزیشن کی آفر ہوئی تھی‘ مجھے کہا گیا تھا ’’تم گورنر بھی رہ سکتے ہو اور نئی حکومت میں اہم پورٹ فولیو بھی لے سکتے ہو بس تم نے ایک پریس کانفرنس کرنی ہے لیکن میں نے صاف انکار کر دیا‘

میری بیوی نے بھی کہہ دیا تھا تم نے اگر یہ آفر قبول کی تو میں طلاق لے لوں گی‘ ہم لوگ شریف فیملی سے اتنے کمیٹڈ ہیں۔ میں نے پوچھا ’’کیا جنرل باجوہ کے کزن انجم نذیر وڑائچ آپ کے فیملی فرینڈ ہیں؟‘‘ زبیر صاحب نے جواب دیا ’’جی ہاں میرے ان سے 40سال پرانے تعلقات ہیں‘ میں جب بھی اسلام آباد آتا تھا ان کے گھر ٹھہرتا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ ان کے ذریعے جنرل باجوہ سے ملتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’وہ بھی ایک سورس تھے مگر گورنر کی حیثیت سے میرے جنرل صاحب سے براہ راست تعلقات بھی تھے یوں میں 27اگست 2020ء کو ان سے ملا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کیوں ملے؟‘‘ ان کاجواب تھا ’’میں میاں صاحب کا پیغام لے کر ان کے پاس گیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’ملاقات کیسی رہی؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’ملاقات کا دورانیہ چار گھنٹے تھا‘ میاں صاحب اور مریم نواز پر پابندی تھی‘ ان کی تصویر‘ آواز اور خبر تک میڈیا پر نہیں چلتی تھی‘

میں نے جنرل باجوہ کو سمجھایا‘ ریاست نے شیخ مجیب سے لے کر بے نظیر بھٹو تک یہ پابندیاں لگا کر دیکھ لیں‘کیا نتیجہ نکلا؟ صرف ملک کا نقصان ہوا‘ اس بار بھی ان پابندیوں کا صرف ملک کو نقصان ہو گا‘ جنرل باجوہ نے پوچھا‘ آپ بتائو کیا میں زیادہ پاپولر ہوں یا مریم نواز؟ میں نے جواب دیا‘ یہ فیصلہ آپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہو گا‘ آپ ریٹائر ہونے کے بعد لاہور جائیں اور دوسری طرف سے مریم نواز آئیں‘ فیصلہ ہو جائے گا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا اسٹیبلشمنٹ اس وقت مریم نواز کو سپیس دینے کے لیے تیار نہیں تھی؟‘‘ زبیر صاحب کا جواب تھا ’’یہ بات درست ہے جنرل باجوہ بار بار کہہ رہے تھے مریم نواز کی کوئی گنجائش نہیں اور میں جواب میں کہتا رہا‘ یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ بہرحال میری کوشش رنگ لائی اور میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سپیس مل گئی‘ مریم صاحبہ کی خبریں چلنا شروع ہو گئیں اور 20ستمبر 2020ء کو پی ڈی ایم بن گئی‘‘ میں نے ان سے پوچھا‘ کیا پی ڈی ایم آپ کے مذاکرات کا نتیجہ تھی؟‘‘ زبیر صاحب کا جواب تھا ’’ ہاں ایک وجہ یہ بھی تھی‘‘۔

میں نے پوچھا ’’میٹنگ کے بعد کیا ہوا؟‘‘ زبیر صاحب کا جواب تھا’’میں نے میاں نواز شریف کو ملاقات کی تفصیل سے مطلع کر دیا‘ مجھے اس کے بعد جو بتایا گیا میں وہ پیغام لے کر 7 ستمبر 2020ء کو دوبارہ آرمی چیف سے ملا اور اس مرتبہ جنرل فیض حمید بھی میٹنگ میں موجود تھے‘ یہ ملاقات بھی طویل تھی اور اس میں بھی بہت کچھ طے ہوا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا فیصلہ اس میٹنگ میں ہواتھا؟‘‘ یہ بولے ’’ میں یہ دعویٰ نہیںکرتا مگر آپ بعد کے تمام واقعات دیکھ لیں‘میری میٹنگ 7 ستمبر کو ہوئی‘ پی ڈی ایم 20 ستمبر کو بنی اورپھر عمران خان کی حکومت دن بہ دن کم زور ہوتی چلی گئی‘‘ میں نے پوچھا ’’ اسٹیبلشمنٹ پھر آپ سے ناراض کیوں ہو گئی؟‘‘ ان کا جواب تھا‘ مریم نواز نے 23 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر کہہ دیا تھا ‘سیاسی فیصلے جی ایچ کیو کے بجائے پارلیمان میں ہونے چاہییں اور پھر میاں صاحب نے 16 اکتوبر 2020ء کو گوجرانوالہ میں تقریرکی‘ ان سے مسائل پیدا ہو گئے‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کی ملاقات کی خبر آئی ایس پی آر نے کیوں دی تھی؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’یہ خبر ڈی جی آئی ایس پی آر نے 23 ستمبر 2020ء کو اے آر وائی پر بیپر دے کر ریلیز کی تھی‘ ارشد شریف مرحوم کو سات بجے خصوصی طور پر سٹوڈیو میں بٹھایا گیا‘

ڈی جی کا ٹیلی فونک انٹرویو ہوا اور انہوں نے میری دونوں ملاقاتوں کی تصدیق کر دی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ جانتے ہیں آپ کی دونوں میٹنگز کی ریکارڈنگز میاں صاحب کو دے دی گئی تھیں جس کے بعد آپ کے میاں صاحب سے تعلقات خراب ہوگئے؟‘‘ محمد زبیر کا جواب تھا ’’مجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہے‘ میں یہ صرف آپ سے سن رہا ہوں تاہم یہ حقیقت ہے ستمبر 2020ء کے بعد میرے میاں صاحب سے تعلقات خراب ہو گئے تھے؟ مجھ سے شہباز شریف نے بھی کہا تھا آپ نے ہمارے ساتھ غلط بیانی کی تھی‘ میرا جواب تھا‘ میں اتنی لمبی میٹنگز میں نوٹس نہیں لے رہا تھا‘ میں نے جوبتایا‘ اپنی یادداشت کی بنیاد پر بتایا لہٰذا الفاظ کا ہیر پھیر ہو سکتا ہے لیکن مفہوم وہی تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ کو یہ رویہ برا لگا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’مجھے برا لگا کیوں کہ میں اُس وقت میاں صاحب اور مریم نواز صاحبہ کا ترجمان تھا جب پارٹی کے تمام ترجمان بھاگ گئے تھے‘

کوئی شخص پارٹی کو ڈیفنڈ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ مجھے 2017ء میں جنرل نوید مختار نے بلا کر کہا تھا‘ تم لوگ مریم نواز کے ساتھ فوج کے خلاف میڈیا سیل چلا رہے ہو‘ میں اس وقت گورنر تھا‘ میں نے انہیں بتایا تھا‘ ہماری پارٹی کے لوگ ٹاک شوز میں جاتے ہیں‘ ہم اس کے لیے تیاری کرتے ہیں‘ہمارے میڈیا سیل میں فوج کے خلاف کوئی بیانیہ نہیں بنتا‘ مجھے اس وقت بھی توڑنے کی کوشش کی گئی تھی‘ اسد عمر میرا بھائی ہے‘ یہ پی ٹی آئی میں تھا‘ ڈاکٹر عارف علوی اور علی زیدی میرے پرانے دوست ہیں‘ ہم اکٹھے پلے بڑھے ہیں‘ 2018ء میں جب تبدیلی آ رہی تھی تو تبدیلی لانے والوں اور ان دوستوں نے مجھے لمبی چوڑی آفرز دیں مگر میں نے معذرت کر لی‘ اکتوبر2021ء میں پینڈورا پیپرز آئے‘ ان میں اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار کا نام تھا‘ پارٹی میں کوئی شخص دفاع کے لیے تیار نہیں تھا‘ یہ کام بھی میں نے کیا‘ میاں صاحب اور مریم صاحبہ کی گرفتاری کے بعد پارٹی کے تمام ترجمان غائب ہو گئے مگر میں مسلسل بولتا رہا‘

میں نے آخر میں پیغام رسانی کا وہ کام بھی کیا جس کے نتیجے میں میاں صاحب بھی ناراض ہو گئے اور جنرل باجوہ بھی‘ مجھے ان تمام خدمات کا کیا فائدہ ہوا؟ میں کارپوریٹ سیکٹر سے آیا تھا‘ ملینز میں تنخواہ لیتا تھا اور کروڑوں کی مراعات تھیں جب کہ میں نے سیاست میں مفت کام کیا‘ میں نے گورنر تک کی تنخواہ بھی نہیں لی‘ مریم صاحبہ کی ہر پیشی پر کراچی سے آتا تھا اور محترمہ کے پہنچنے سے پہلے عدالت پہنچ جاتا تھا لیکن جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تو کابینہ میں 83 لوگ تھے‘ صرف میں نہیں تھا‘ مجھے اس کا بھی کوئی ملال نہیں لیکن ملک کے بارے میں میرا ایک نقطہ نظر ہے‘ میں یہ سمجھتا ہوں ہم جب تک معیشت کا خون چوسنے والے سرکاری ادارے فروخت نہیں کرتے ہم اس وقت تک یہ ملک نہیں چلا سکیں گے‘ پی آئی اے کا خسارہ120 ارب روپے ہے‘ آغا خان فائونڈیشن ملک کا جدید ترین ہسپتال بنا رہی ہے‘ اس کی لاگت 60ارب روپے ہے جب کہ پی آئی اے 120 ارب روپے پھونک دیتی ہے‘

کیا مجھے اس پر بات نہیں کرنی چاہیے؟ نج کاری ہمارے دور میں مکمل ہونی چاہیے تھی‘ نہیں ہو سکی اور اگر یہ اب بھی نہیں ہوتی تو پھر ہم دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے‘‘ میں نے پوچھا ’’سیاست میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’کہا جاتا ہے سیاست میں پڑھے لکھے لوگ نہیں آتے‘ ہم تین آئے تھے‘ ملک کا سب سے کام یاب سی ای او اسد عمر آیا‘ میں بھی آیا اور مفتاح اسماعیل بھی تھا‘ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ہم تینوں سیاست سے باہر ہیں جب کہ وہ لوگ جو پڑھ سکتے ہیں‘ لکھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں وہ سب ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں‘ آپ اس سے سیاست کے مستقبل کا اندازہ کر لیجیے‘‘۔
blank

موضوعات:

Source link
javedch.com

اپنا تبصرہ بھیجیں