عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں رہتے ہیں جب کہ ان کے والدین لاہور میں مقیم ہیں‘ عرفان صاحب کو چند دن قبل ان کی والدہ نے فون پر بتایا ’’بیٹا میں نے آپ کی بیگم کے لیے لاہور سے عید کے کپڑے بھجوائے ہیں‘ میں نے شاید ایڈریس غلط لکھ دیا ‘ ٹی سی ایس کے لوگ فون کریں گے‘ آپ ایڈریس ٹھیک کرا دینا‘‘ عرفان صاحب فون کا انتظار کرنے لگے‘ تھوڑی دیر بعد انہیں پاکستان پوسٹ سے میسج موصول ہوا اور پھر فون آ گیا‘ انہیں بتایا گیا’’ ایڈریس غلط ہونے کی وجہ سے آپ کا پیکٹ رک گیا ہے‘
آپ اگر ہمیں 89 روپے جمع کرا دیں تو آپ کا پیکٹ ڈیلیور کر دیا جائے گا ورنہ یہ لاہور واپس چلا جائے گا اور یوں آپ کو ڈبل پے منٹ بھی کرنی پڑے گی اور ہفتہ انتظار بھی‘‘ یہ پیش کش اتنی سادہ اور سستی تھی کہ عرفان نے فوراً ہاں کر دی‘ اس کے بعد پے منٹ کا پراسیس سٹارٹ ہو گیا‘ انہیں بتایا گیا‘ آپ ہمیں اپنے ڈیبٹ کارڈ کی تفصیل بتائیں‘ ہم آپ کے اکائونٹ سے 89 روپے نکال لیں گے اور دو گھنٹے بعد پیکٹ آپ کے گھر ڈیلیور ہو جائے گا‘ عرفان صاحب نے انہیں کارڈ نمبر بھی بتا دیا اور پن کوڈ بھی‘ فون کرنے والے نے کہا‘ آپ کو ابھی ’’او ٹی پی‘‘ آئے گا‘ آپ مجھے وہ بھی بھجوا دیں‘ تھوڑی دیر بعد بینک سے ’’او ٹی پی‘‘ آ گیا‘ عرفان صاحب نے وہ بھی بتا دیا‘ تھوڑے سے وقفے کے بعد بتایا گیا‘ او ٹی پی فیل ہو گیا‘ شاید آپ کے بینک کا لنک ڈائون ہے‘ ہم دوبارہ کوشش کرتے ہیں‘ پورا پراسیس دوبارہ ہوا لیکن اس بار بھی لنک ڈائون تھا‘ قصہ مختصر یہ پراسیس چار بار ہوا اور ناکام ہو گیا‘ اس وقت تک عرفان صاحب بھی زچ ہو چکے تھے لہٰذا انہوں نے کہا‘ میں آپ کے کسی سنٹر میں جا کر پیسے جمع کرا دوں گا‘ فون پر موجود شخص نے فوراً حامی بھر لی‘ عرفان صاحب نے پوچھا ’’آپ ٹی سی ایس کی کس برانچ سے بول رہے ہیں؟‘‘ فون والے نے بتایا‘ میں ٹی سی ایس سے نہیں پاکستان پوسٹ سے بول رہا ہوں‘‘ عرفان صاحب کی والدہ نے انہیں ٹی سی ایس کا بتایا تھا جب کہ کال پاکستان پوسٹ سے تھی‘ انہیں معاملہ کھٹکا لیکن پھر سوچا شاید مجھے سننے میں غلطی ہو گئی ہو یا والدہ نے ٹی سی ایس کی بجائے پاکستان پوسٹ میں پیکٹ جمع کرا دیا ہو بہرحال فون بند ہو گیا اور عرفان صاحب اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو گئے۔
گھنٹے بعد انہیں بینک سے فون آ گیا اور ان سے پوچھا گیا ’’کیا آپ بیرون ملک ہیں؟‘‘ عرفان صاحب نے حیرت سے جواب دیا ’’ جی نہیں‘میں کراچی میں ہوں‘‘ اس کے بعد انہیں بتایا گیا آپ کا ڈیبٹ کارڈ ہانگ کانگ میں استعمال ہوا ہے اور آپ کے اکائونٹ سے سوا پانچ لاکھ روپے نکل چکے ہیں‘ عرفان صاحب کے پائوں کے نیچے سے زمین کھسک گئی اور یہ بینک پر چڑھ گئے‘ بینک کے کالر نے پوچھا‘ کیا آپ نے آج کسی جگہ آن لائین پے منٹ کی تھی‘ عرفان صاحب نے بتایا‘ مجھے پاکستان پوسٹ سے 89 روپے کی ادائیگی کا فون آیا تھا‘ میں نے چار کوششیں کیں لیکن لنک ڈائون ہونے کی وجہ سے رقم ٹرانسفر نہیں ہو سکی‘ کالر نے بتایا‘ جناب وہ کال جعلی تھی اور اس کے ذریعے آپ کا اکائونٹ خالی ہو چکا ہے‘ عرفان صاحب نے پوچھا ’’کیا مجھے میری رقم واپس مل سکے گی؟‘‘ انہیں بتایا گیا ’’رقم چلی گئی تو بس چلی گئی تاہم آپ کا کارڈ بلاک کر کے ہم آپ کو مزید نقصان سے بچا سکتے ہیں‘‘ اور اس کے بعد بینک نے عرفان صاحب کا کارڈ بلاک کر دیا‘ عرفان صاحب نے اس کے بعد والدہ کو فون کر کے پوچھا‘ امی جی آپ نے سوٹ کہاں بک کرایا تھا ؟ والدہ نے بتایا میں نے ٹی سی ایس میں بک کرایا تھا‘ عرفان صاحب حیران ہیں ٹی سی ایس کا ڈیٹا پاکستان پوسٹ یا جعلی پاکستان پوسٹ تک کیسے پہنچا؟ انہوں نے پاکستان پوسٹ سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا‘ ہمارے پاس آن لائین پے منٹ اور کال کا سسٹم ہی نہیں‘ ہم آن لائین پے منٹ لیتے ہیں اور نہ کال کرتے ہیں‘
عرفان صاحب نے اپنے ساتھ ہونے والی یہ واردات اپنے گروپ میں اپ لوڈ کردی‘ پتا چلا یہ اکیلے ہدف نہیں ہیں‘ اب تک درجنوں (شاید ہزاروں) لوگ پاکستان پوسٹ کی کالز سے لٹ چکے ہیں‘ ملک میں کوئی گینگ کام کر رہا ہے‘ یہ پاکستان پوسٹ کے نام سے لوگوں کو میسج اور فون کرتا ہے اور آخر میں ان کے اکائونٹ سے ساری رقم نکال لیتا ہے‘ یہ سیدھا سادا فراڈ ہے لیکن سوال یہ ہے ٹی سی ایس کا ڈیٹا فراڈیوں تک کیسے پہنچتا ہے؟ اس سوال کا جواب بہت آسان ہے‘ آن لائین فراڈ کرنے والے گینگ مختلف اداروں سے ڈیٹا خریدتے ہیں‘ یہ اس دھندے کے لیے لوگوں کو رشوت بھی دیتے ہیں اور ان اداروں میں اپنے لوگ بھی بھرتی کرا دیتے ہیں اور یہ لوگ ڈیٹا نکال کر ان کو دیتے رہتے ہیں‘ عرفان صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ دوسرا ان لوگوں نے پاکستان پوسٹ کے نام سے ویب سائیٹس اور پورا آن لائین سسٹم بنا رکھا ہے‘ عرفان صاحب کے فون پر بھی پاکستان پوسٹ کی طرف سے باقاعدہ پیغام آیا جس میں لکھا تھا آپ کا پیکٹ غلط ایڈریس کی وجہ سے ڈیلیور نہیں ہو سکے گا‘ آپ اپنا درست ایڈریس درج ذیل ویب سائیٹ پر لکھیں بصورت دیگر آپ کا پیکٹ واپس بھجوا دیا جائے گا اور اس کے بعد انہیں فون آگیا چناں چہ پھر شک کی گنجائش ہی نہیں تھی اور تیسرا اس میں بینک کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں‘
عرفان صاحب کا اکائونٹ الائیڈ بینک میں ہے‘ اس فراڈ کے دوران انہیں او ٹی پی (ون ٹائم پاس ورڈ) تاخیر سے ملتا رہا لہٰذا اب سوال یہ ہے فرض کر لیں ٹی سی ایس سے ڈیٹا چوری ہو گیا‘ فرض کر لیں فراڈ گینگ نے سرکاری ادارے ’’پاکستان پوسٹ ‘‘کی جعلی ویب سائیٹ اور جعلی آن لائین پے منٹ سسٹم بنا لیا لیکن بینک کا سسٹم ان کا آلہ کار کیسے بن گیا؟ کیا بینک کو بھی معلوم نہیں ہو سکا ان کا سسٹم غلط استعمال ہو رہا ہے‘ کلائنٹ ڈیبٹ کارڈ کراچی میں استعمال کر رہا ہے اور رقم ہانگ کانگ میں کٹ رہی ہے‘ کیا بینک کا سسٹم اس پراسیس کو روک کر کلائنٹ سے فون کے ذریعے کنفرم نہیں کر سکتا تھا؟ یہ ممکن تھا مگر یہ نہیں ہوا‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے تین مختلف سیکٹرز کے لوگ اس دھندے میں شریک ہیں‘ ایک ادارے (ٹی سی ایس) سے ڈیٹا چوری ہوتا ہے‘ دوسرے ادارے کے لوگوں نے پاکستان پوسٹ کے نام سے جعلی آن لائین سسٹمز اورویب سائیٹس بنا رکھی ہیں اور تیسرے ادارے یعنی بینکوں کے لوگ بھی ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور یہ گینگ اب تک نہ جانے کتنے لوگوں کو ان کے سرمائے سے محروم کر چکا ہے‘ مجھے یقین ہے ہم اگر ٹی سی ایس سے پوچھیں گے تو ہمیں جواب ملے گا ہمارا ڈیٹا بہت سیکور ہے‘ ہمارے سسٹم سے لوگوں کی معلومات نہیں نکل سکتیں لیکن سوال یہ ہے پھر آپ کے کلائنٹ کے فون نمبرز اور ایڈریس مارکیٹ میں کیسے آ رہے ہیں؟ پاکستان پوسٹ کا جواب بھی یہ ہوگا’’ ہم بار بار اپنے صارفین کو پیغام بھجواتے ہیں‘
ہمارا کوئی آن لائین سسٹم نہیں‘ ہم آن لائین پے منٹس نہیں لیتے‘ صارفین ہماری ویب سائیٹس سے صرف اپنے پیکٹس ٹریک کر سکتے ہیں‘‘ اور اگر بینکوں سے رابطہ کیا جائے تو ان کا جواب ہو گا ہم ہر ’’او ٹی پی‘‘ کے ساتھ یہ پیغام بھجواتے ہیں آپ یہ کوڈ کسی کے ساتھ شیئر نہ کریں اور آپ کی رقم آن لائین شاپنگ کے لیے استعمال ہو رہی ہے‘ وغیرہ وغیرہ مگر اب سوال یہ ہے کیا بینک‘ پاکستان پوسٹ اور ٹی سی ایس اس نوعیت کے پیغامات کے بعد بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟ کیا اپنے کلائنٹس کی رقم اور معلومات کی حفاظت ان کا کام نہیں؟ اور دوسرا اگر پاکستان پوسٹ جیسے سرکاری ادارے کے نام پر فراڈ ہو رہا ہے اور سرکار اپنے نام اور اپنے ادارے کی عزت نہیں بچا سکتی تو پھر کیا سرکار کو سرکار کہنا چاہیے؟ ملک میں اگر سرکاری اداروں کے نام پر ویب سائیٹس اور آن لائین پے منٹ سسٹم بنانا اور کال سنٹر بنا کر اکائونٹس سے پیسے کھینچنا اتنا آسان کام ہے تو پھر اگر کل کو کوئی شخص ’’سٹیٹ بینک آف پاکستان‘‘ کی ویب سائیٹس اور آن لائین پے منٹ سسٹم بنا کر سرکاری اداروں کے اربوں روپے کھینچ لے یا ایف بی آر کا سسٹم ہیک کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں یا بینکوں کے اکائونٹس سے رقم نکال لے تو ریاست کہاں سٹینڈ کرے گی؟ عرفان صاحب جیسے لوگوں کے ساتھ فراڈ ایک چھوٹا کیس ہے لیکن یہ کیس ثابت کرتا ہے ہمارے ملک کا سسٹم انتہائی کم زور ہے‘ بینکوں کے نظام میں بھی ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ نہیں ہے‘
پاکستان پوسٹ جیسے اداروں کے پلے بھی کچھ نہیں‘ ٹی سی ایس جیسے کھرب پتی اداروں کا ڈیٹا بھی غیر محفوظ ہے اور ٹیلی کام اور سائبر سیکورٹی کی حالت بھی انتہائی پتلی ہے چناں چہ جس کا جہاں دائو لگ رہا ہے وہ وہاں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا‘ ملک کی حالت جب یہ ہو گی حماد اظہر ریاست کو مطلوب ہونے کے باوجود لاہور سے نکل کر اسلام آباد پہنچ جائے‘ پارٹی کے دفتر آئے‘ یوٹیوبرز کو انٹرویوز دے اور پشاور پہنچ جائے لیکن ریاست کو خبرتک نہ ہو‘عمران خان رات کے وقت لوگوں کو جیل سے پیغام بھجوائے اور یہ پیغام باقاعدہ ڈیلیور ہوجائے تو پھر پاکستان پوسٹ کے نام پر فراڈ کیوں نہ ہو؟ یہ تو کوئی ایشو ہی نہیں‘ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہو وہاں ایک آدھ پیالہ ٹوٹنے کی فکر کون کرے گا‘عوام کو بینک فراڈ سے بچانے کا بندوبست کون کرے گا؟۔
نوٹ: جولائی کے مہینے میںہماراخواتین کا گروپ آذربائیجان جا رہا ہے‘ خواتین اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتی ہیں۔
Source link
javedch.com