blank

عمران خان حکومت میں آگئے تو اسٹیبلشمنٹ انکے اشاروں پر چلے گی یا کپتان اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلے گا ؟

قصہ مختصر یہ کہ پرویز مشرف کی آمریت نے پھر ق لیگ تخلیق کر ڈالی، ذرا ماضی کے جھروکوں سے اگر جھانک کر ہم دیکھیں تو ہروہ جماعت ، جس نےاسٹیبلشمنٹ کیخلاف نعرہ لگایا، اقتدار میں آتے ہی کاسہ لیسی کیلئے بے قرار ہوئی۔1999میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیںاور پیپلز پارٹی سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس تبدیلی کا خیر مقد م کیا۔ پھروہی بیزاری کا سلسلہ جو قبل ازیں ایوبی اور ضیاء آمریتوں کے آخر میں عوام دیکھ چکے تھے، دراز ہوا، یہاں تک کہ سیاست پھر اصل ٹریک پر آئی، لیکن حسب سابق سیاستدانوں نے خود کو ایک مرتبہ پھر نا اہل ثابت کیا اور اسٹیبلشمنٹ کی گود میں جا بیٹھے ،ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ سیاست میں ہر غیر جمہوری عمل نے قوم و ملک کو نقصان سے ہی دوچار کیا ہے۔دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والاہندوستان ہے، جہاں اس طرح کی مثالیں تلاش ِبسیار کے بعد بھی ہاتھ نہیں آتیں۔ فطری سیاسی عمل کی بدولت آج کانگریس جیسی بھارت کی بانی جماعت کو بھی محض کارکردگی کی بنیاد پر ہی پرکھا جاتا ہے، بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت کی پالیسیاں بھی اپنے ملک و عوام کیلئے اس قدر ترقی پسند ہوتی ہیں کہ عوام کانگریس پر بی جے پی کو ترجیح دے دیتے ہیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ آج اگر پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑانظر آتا تو پھر یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا کہ آمریتوں و سیاست میں آمیزش کی بدولت ہی ہم اس اعلیٰ مقام پر فائز ہیں لیکن اگر پاکستان آج ترقی کے حوالے سے بھارت و بنگلہ دیش سمیت دنیا کے 143ممالک سے پیچھے ہے تو کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری یہ قومی بربادی درحقیقت آمریتوں اور ملاوٹ شدہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی کارستانیوں ہی کا نتیجہ ہے۔

ہم بات کررہے تھے عمران خان کی مقبولیت کی، جس کے سبب اگر انتخابات شفاف ہوتے

ہیں تو وہ اقتدار میں آسکتے ہیں،آخر میں پھر وہی سوال کہ کیا عمران خان آزادانہ طورپر فیصلے کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکیں گے اور نعرہ صرف نعرہ نہیں ہوگا۔؟

Source link
hassannisar.pk

اپنا تبصرہ بھیجیں