blank

ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے جانے والی آبدوز لاپتہ ، پاکستانی بزنس مین شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے بھی سوار

لندن /ٹورنٹو (این این آئی)بحر اوقیانوس میں غرقاب ٹائی ٹینک کے ملبے کی سیاحت کیلئے جانے والی آبدوز میں 2 پاکستانی بھی شامل تھے۔برطانوی میڈیا کے مطابق بحراوقیانوس میں 111 سال قبل غرق ہونے والے جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کا نظارہ کرنے کے لئے جانے والی لاپتہ آبدوز کی تلاش شروع کر دی گئی ،

یہ آبدوز کینیڈا کے جزیرے نیو فاؤنڈلینڈ سے روانہ ہوئی تھی۔امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق اتوار کے روز سفر کے آغاز کے ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد ہی آبدوز کا رابطہ منقطع ہو گیا تھا، ہمارا اندازہ ہے کہ ہمارے پاس اس وقت 70 سے 96 گھنٹے دستیاب ہیں، سرچ آپریشن کا علاقہ کافی دور دراز ہے، اس سرچ آپریشن میں ایک آبدوز اور دو ہوائی جہاز حصہ لے رہے ہیں۔برطانوی میڈیا کے مطابق لاپتہ آبدوز میں 5 افراد کی گنجائش تھی اور اس میں 5 افراد ہی سوار تھے، ان فراد میں 2 پاکستانیوں سمیت ایک برطانوی ارب پتی بھی شامل ہیں جبکہ دیگر دو عملے کے افراد میں آبدوز کے پائلٹ اور ایک تکنیکی ماہر موجود ہیں۔اس آبدوز میں سوار پاکستانی شہریوں میں شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان بھی شامل ہیں۔خیال رہے کہ شہزادہ داؤد پاکستان کی ایک نجی کمپنی کے نائب چیئرمین ہیں، نجی کمپنی کی جانب سے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر واقعہ کی تصدیق کی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ شہزادہ داؤد اور اْن کے بیٹے سلیمان نے بحر اوقیانوس میں ٹائی ٹینک کی باقیات کو دیکھنے کے لیے سفر کا آغاز کیا تھا، فی الحال آبدوز سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے، ان کی تلاش کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔برطانوی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق آبدوز کا 8 دن کے سفرکا کرایہ ڈھائی لاکھ ڈالر ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر بحراوقیانوس کی تہہ میں موجود 3800 میٹر تک اتر کر ٹائی ٹینک جہاز کا ملبہ دیکھا جاتا ہے، آبدوز میں چار دن کی ایمرجنسی آکسیجن سپلائی موجود ہوتی ہے، یہ آبدوز 13100 فٹ کی گہرائی تک جاسکتی ہے۔

خیال رہے ٹائی ٹینک اپریل 1912 میں اپنے اولین سفر پر برطانیہ سے امریکا جاتے ہوئے برفانی تودے سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا جس کے نتیجے میں جہاز پر سوار 2200 مسافروں اور عملیکے اراکین میں سے ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جہاز کا ملبہ کینیڈا کے علاقے نیو فاؤنڈلینڈ کے ساحل سیتقریباً 600 کلومیٹر دورہے، ڈوبنے کے بعد اس جہاز کا ملبہ بھی ایک معمہ بن گیا تھا اور 7 دہائیوں سے زائد عرصے بعد 1985 میں اسے دریافت کیا گیا تھا۔

Source link
javedch.com

اپنا تبصرہ بھیجیں