blank

100 بیگمات رکھنے والے بہاولپور کے نواب، جن کی بیویوں کو طلاق کے بعد بھی حرم سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی،مگر کیوں؟؟جانیے اس رپورٹ میں

آج کے زمانے میں ایک سے زائد شادی کرنا آبیل مجھے مار کے مترادف ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا جب نہ صرف ایک سے زائد شادیوں کا رواج عام تھا بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی تھی، عام لوگ ایک سے زائد شادیاں کرتے تھے لیکن بادشاہ سینکڑوں شادیاں بھی کرتے رہے ہیں،

آج ہم پاکستان کے ایک ایسے ہی شاہی خاندان کے بارے میں بات کریں گے جس کے بادشاہ کی ایک وقت میں 100 سے زائد بیگمات ہوتی تھیں اور ان بیگمات کو حرم سے نکلنے تک کی اجازت نہیں ہوتی تھی، یہ خواتین ساری زندگی حرم کی خوبصورت قید میں گزار دیتی تھیں۔ یہاں تک کہ شوہر سے علیحدگی یا بیوگی کی صورت میں بھی یہ باقی زندگی محل میں گزارا کرتی تھیں۔ یہ کہانی ہے ریاست بہاولپور کے شاہی خاندان کی جس کی بنیاد نواب صادق خان اول نے سنہ 1733 میں رکھی تھی۔ متحدہ ہندوستان کی خود مختار ریاست بہالپور کے حکمران خود کو نواب کہلاتے تھے، یہ ریاست تقسیمِ ہند کے بعد پانچ اکتوبر 1947 کو پاکستان میں ضم ہوگئی ، اس سے پہلے تک اس خطے پر 12 نوابوں نے حکومت کی۔ یہ ایک انتہائی خوش حال ریاست تھی جس کے محلات آج بھی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں، بالخصوص بہاولپور میں موجود نور محل آج بھی دیکھنے کے قابل ہے، ہر سال لاکھوں لوگ یہ محل دیکھنے آتے ہیں۔ شاید یہ خوشحالی اور مال و دولت کی فراوانی ہی تھی کہ بہاولپور کے نواب بڑے بڑے حرم رکھتے تھے، سنہ 1866 سے 1899 تک اس ریاست پر حکومت کرنے والے نواب صادق خان رابع کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی 100 بیویاں تھیں، ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے بہاول خان خامس ریاست کے نواب مقرر ہوئے تو انہوں نے اپنے والد کو بھی مات دے دی۔ بہاول خان کی بیویوں کی تعداد 100 سے بھی تجاوز کرگئی تھی،

ان میں سے چار خاندانی، دو اینگلو انڈین، ایک انگریز اور ایک عراقی خاتون تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک بیوی نچلی ذات کی ہندو ظہراں کٹانی تھی جس سے انہیں عشق ہو گیا تھا۔ اس سے ان کے دو بیٹے ہوئے تھے جو انہوں نے درگاہ خواجہ غلام فرید کی خدمت گزاری پر مامور کر دیے تھے۔ بڑے بڑے حرم رکھنے والے یہ نواب خواتین کے پردے کے معاملے میں انتہائی سخت مزاج واقع ہوئے تھے یہی وجہ تھی کہ حرم میں کسی پرندے کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، حرم کی سیکیورٹی اتنی سخت ہوتی تھی کہ دہری فصیل قائم کی گئی تھی، یعنی حرم کے آگے ڈبل دیوار بنائی گئی تھی تاکہ کوئی بھی غیر شخص اندر داخل نہ ہوسکے۔ حرم کے اندر خدمت کیلئے کنیزوں کے ساتھ ساتھ خواجہ سرا بھی تعینات ہوتے تھے، حرم کے پردے کا یہ عالم تھا کہ نوابوں کے اپنے شہزادے بھی آٹھ سال کی عمر میں باہر منتقل کردیے جاتے تھے۔ حرم میں رہنے والی بیگمات کو سال میں صرف ایک بار میکے جانے کی اجازت دی جاتی اور وہ بھی انتہائی سخت سیکیورٹی کے ساتھ، ان کی گاڑیوں پر پردے ڈال دیے جاتے تاکہ راستے میں لوگوں کو پتا چل جائے کہ معزز خواتین آرہی ہیں اور وہ اس طرف سے منہ موڑ کر کھڑے ہوجائیں۔

Source link
hassannisar.pk

اپنا تبصرہ بھیجیں