blank

زم زم تھراپی

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی نشتر میڈیکل کالج میں بچوں کے سپیشلسٹ اور پروفیسر تھے‘ یہ آج کل سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں‘ یہ ہمارے آذر بائیجان کے ٹور میں شامل تھے‘ حلیے سے مولوی دکھائی دیتے تھے‘ باریش‘ ٹخنے ننگے اور سنجیدہ‘ میں شروع میں انہیں کٹڑ مولوی سمجھ رہا تھا لیکن جب ان کے ساتھ گفتگو شروع ہوئی تو یہ مختلف انسان نکلے‘ گفتگو کے دوران انہوں نے اپنی ایسی حیران کن داستان سنائی جس نے مجھے ششدر بھی کر دیا اور میرا ایمان بھی تازہ کر دیا‘ ڈاکٹر صاحب کو خوف ناک کینسر ہو گیا تھا لیکن اللہ نے انہیں جس طرح شفاء دی یہ ایک معجزاتی داستان ہے‘ میں صدقہ جاریہ سمجھ کر یہ داستان آپ کی نذر کر رہا ہوں۔

ڈاکٹر غلام مصطفی کا تعلق ملتان سے تھا مگر انہوں نے تعلیم ملٹری کالج جہلم‘ گورنمنٹ کالج لاہور اور کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج سے حاصل کی‘پورے ایجوکیشن کیریئر میں ٹاپ کرتے رہے‘ ہائوس جاب کے بعد سکن سپیشلائزیشن کی‘ والدین بوڑھے تھے لہٰذا یہ میو ہسپتال کی نوکری چھوڑ کر ملتان آ گئے‘ نشتر میڈیکل کالج میں ’’ڈرما ٹالوجی‘‘ کا ڈیپارٹمنٹ نہیں تھا لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے بچوں کی بیماریوںمیں سپیشلائزیشن کر لی اور پریکٹس کے ساتھ ساتھ پڑھانے بھی لگے‘ یہ 2003ء میں سنگاپور سے بچوں میں سینے کی بیماریوں پر سپیشلائزیشن بھی کر آئے‘ یہ پاکستان میں اس فیلڈ میں پہلے سپیشلسٹ تھے‘

ڈاکٹرصاحب 2018ء میں امریکن اکیڈمی آف پیڈز کی دعوت پر امریکا گئے‘ وہاں انہیں اچانک پورے جسم پر خارش ہونے لگی‘ ڈاکٹر صاحب کے بقول خارش اس قدر شدید اور خوف ناک تھی کہ میں بیٹھ نہیں سکتا تھا‘ میرا دل کرتا تھا میں اپنا پورا جسم ناخنوں سے چھیل دوں‘ میں کیوں کہ خود سکن سپیشلسٹ رہا ہوں لہٰذا میں نے پورے جسم پر مرہم کا لیپ کرنا شروع کر دیا لیکن آرام نہیں آیا‘ میں نے اس کے بعد خارش کی گولیاں کھانا شروع کر دیں‘ اس سے بھی آرام نہیں آیا تو پھر میں مرہم اور گولیاں دونوں استعمال کرنے لگا مگر افاقہ نہ ہوا‘ میں اس قدر خارش کرتا تھا کہ میرے جسم سے خون نکلنے لگتا تھا‘ میں نے اپنے دوست ڈاکٹر اعجاز حسین سے مشورہ کیا‘ یہ پاکستان کے سب سے بڑے سکن سپیشلسٹ ہیں‘

انہوں نے بھی وہی ادویات تجویز کیں جو میں پہلے سے استعمال کر رہا تھا‘ بہرحال طویل بحث کے بعد ڈاکٹر اعجاز نے مجھے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دے دیا‘ میں نے ٹیسٹ کرائے تو ایل ایف ٹیز ابنارمل نکلے‘ اس کے بعد الٹرا سائونڈ کرایا‘ الٹرا سائونڈ میں جگر کے دائیں بائیں گڑ بڑ نظر آئی‘ ایم آر آئی کرائی اور اس کے بعد اینڈوسکوپی‘ان تمام ٹیسٹوں میں میرے جسم میں ’’گروتھ‘‘ نظر آئی جس کے بعد بائیوآپسی ہوئی اور آخر میں ’’امپولا آف واٹر(Ampulla of Vater)کینسر‘‘ نکل آیا‘ یہ ایک نایاب قسم کا کینسر ہے‘ اس میں چھوٹی اور بڑی آنت کے جوڑ پر پھوڑا نکل آتا ہے اور اس کا زہر چند ماہ میں پورے جسم میں پھیل جاتا ہے‘ میں خود ڈاکٹر ہوں‘ میں اس کی شدت کا اندازہ کر سکتا تھا چناں چہ میں نے فوراً ملک کے نامور سرجن ڈاکٹر فیصل ڈار سے رابطہ کیا‘ یہ آج کل پی کے ایل آئی کے ڈین ہیں جب کہ اُس وقت یہ شفاء ہسپتال اسلام آباد میں ہوتے تھے‘ مجھے انہوں نے اسلام آباد بلا لیا‘ میرا 11 گھنٹے طویل آپریشن ہوا اور میرے پیٹ سے آدھی انتڑیاں اور دوسرے متاثرہ اعضاء نکال دیے گئے‘ آپریشن لمبا اور خوف ناک تھا‘ بہرحال اللہ نے کرم کیا اور میری جان بچ گئی۔

میرا کینسر نایاب تھا‘ امریکا میں بھی آپریشن اور کیموتھراپی کے بعد مریض صرف اٹھارہ ماہ تک بچ پاتے ہیں‘ مجھے آپریشن کے بعد ریکوری میں تین ماہ لگ گئے‘ اس کے بعد کیموتھراپی کا مرحلہ آ گیا‘ میں ڈاکٹر ہوں‘ میں کیموتھراپی کی اہمیت اور تکلیف دونوں کو سمجھتا ہوں‘ میں جانتا ہوں آپریشن کے بعد کیموتھراپی ناگزیر ہوتی ہے لہٰذا میں نے کیموتھراپی شروع کرا دی‘ پہلا سیشن لیا‘ وہ اتنہائی تکلیف دہ تھا‘ میرا وزن گر گیا اور میں چلنے پھرنے کے قابل بھی نہ رہا‘ میں نے بڑی مشکل سے دوسرے سیشن کی تیاری کی لیکن انجیکشن سے قبل وہ معجزہ ہو گیا جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی‘ میرے بیٹے عبداللہ نے مجھے مشورہ دیا ابو اگر کیموتھراپی کے بعد بھی صرف 18 ماہ کی زندگی ہے تو پھر ہم اس اذیت سے کیوں گزر رہے ہیں؟ ہم کوئی اور طریقہ استعمال کیوں نہیںکرتے؟ بیٹے نے مجھے زم زم تھراپی ٹرائی کرنے کا مشورہ دیا‘

میں نے عبدالمالک مجاہد کی کسی کتاب میں لبنان کی ایک رقاصہ کے بارے میں پڑھا تھا‘ وہ سکن کینسر میں مبتلا ہو گئی تھی‘ اس کے پورے جسم پر پھوڑے نکل آئے تھے‘ اس کا خاوند اسے مکہ لے گیا ‘ وہ وہاں آب زم زم پیتی تھی اور اسی سے نہاتی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اسے شفاء دے دی‘ مجھے بیٹے کا مشورہ اچھا لگا‘ میرے ایک عربی ڈاکٹر دوست سعودی عرب میں اعلیٰ عہدے پر تعینات ہیں‘ میں نے ان سے رابطہ کیا‘ انہوں نے مجھے ویزہ بھجوا دیا اور میں سعودی عرب پہنچ گیا‘ وہاں میرے تین کام تھے‘ میں روزانہ آٹھ سے دس لیٹر آب زم زم پیتا تھا‘ آب زم زم کی دعا پڑھتا تھا اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتا تھا‘آپ یہ جان کر حیران ہوں گے تین ماہ بعد میرے جسم میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی‘ مجھے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے میرے جسم کے اندرونی زخم ٹھیک ہو رہے ہیں‘ اگلے تین ماہ میں صورت حال مزید بہتر ہو گئی یہاں تک کہ میں چھ ماہ کے بعد مکمل صحت یاب ہو گیا‘‘۔

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی کا کہنا تھا دنیا میں امپولا آف واٹر کینسر کے مریض آپریشن اور کیموتھراپی کے باوجود اٹھارہ ماہ زندہ رہ سکتے ہیں جب کہ میں سال بھر میں مکمل صحت یاب ہو گیا‘ میرے ٹیسٹ ہوئے اوران سے کینسر غائب تھا‘ آپریشن کے دوران میرا لبلبہ بھی آدھے سے زیادہ کاٹ دیا گیا تھا مگر مجھے اس کے باوجود شوگر ہوئی اور نہ میں انسولین لگاتا ہوں‘ میرے سرجن ڈاکٹر فیصل ڈار نے ایک دن مجھے فون کیا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’آپ کون بول رہے ہیں؟‘‘ ان کا خیال تھا میرا فون میرے بیٹے یا کسی اہل خانہ کے پاس ہو گا لیکن میں نے جب انہیں بتایا ’’میں ڈاکٹر غلام مصطفی بول رہا ہوں‘‘ تو وہ بہت حیران ہوئے‘ میں الحمد للہ اب پانچ سال سے حیات بھی ہوں اور صحت مند بھی‘ نماز پڑھتا ہوں‘ ہسپتال میں کام کرتا ہوں‘ صرف اور صرف آب زم زم پیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ سعودی عرب میں کیوں رہ رہے ہیں‘ آپ پاکستان آ جائیں‘‘ ان کا جواب تھا ’’پاکستان میں آب زم زم دستیاب نہیں‘ میں نے شروع میں مختلف لوگوں سے زم زم لیا مگر وہ جعلی نکلا‘

اصل زم زم بہت مہنگا تھا‘ میں افورڈ نہیں کر سکتا تھا لہٰذا میں سعودی عرب آ گیا‘وہاں مجھے حرم شریف میں نماز کی سہولت بھی ہے‘ زم زم کی بھی اور یہ لوگ میری بے انتہا عزت بھی کرتے ہیں‘ میں وہاں پریکٹس کرتا ہوں اور عزت کے ساتھ زندگی گزارتا ہوں‘‘ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا’’ مجھے سعودی عرب نے شہریت کی پیش کش بھی کی وہاں بچوں کے ڈاکٹروں کی قلت ہے‘ یہ مجھے وہاں رکھنا چاہتے ہیں مگر جس شخص کو پاکستان کا چسکا لگ جائے وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں رہ سکتا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے یہ داستان باکو شہر کے قدیم حصے میں واک کے دوران سنائی اور میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ یہ اگر ڈاکٹر اور پروفیسر نہ ہوتے تو شاید میں ان کی بات پر یقین نہ کرتا مگر یہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور یہ ڈاکٹری پڑھاتے بھی ہیں اور باقاعدہ انٹرنیشنل لیول پر جدید میڈیکل سائنس پر لیکچر بھی دیتے ہیں لہٰذا ہم ان کے تجربے کو صرف پازیٹو تھنکنگ یا اتفاق کہہ کر مسترد نہیں کر سکتے اور یہ اگر اس معاملے میں اکیلے ہوتے تو بھی اسے محض اتفاق کہا جا سکتا تھا جب کہ آب زم زم کی وجہ سے اب تک سینکڑوں لوگ مہلک بیماریوں سے شفاء یاب ہو چکے ہیں‘

ان میں بوسنیا کا نہادجے بھی شامل ہے‘ اسے 32سال کی عمر میں 2006ء میں جگر کا کینسر ہوا‘ ڈاکٹروں نے اسے جواب دے دیا‘ یہ 2007ء میں حج پر گیا‘ وہاں جی بھر کر آب زم زم پیتا اور اللہ اللہ کرتا رہا اور پھر معجزہ ہو گیا‘ یہ بھی صحت یاب ہو گیا‘ یہ آج بھی زندہ ہے اور روزانہ میڈیکل سائنس کا منہ چڑاتا ہے‘ ایسی بے شمار اور بھی مثالیں موجود ہیں‘ میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا کینسر کے مریضوں کو علاج ترک کر کے آب زم زم کو علاج بنا لینا چاہیے‘ یہ بے شک سرجری اور علاج کرائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آب زم زم کو بھی ضرور ٹرائی کریں‘ رسول اللہ ﷺ نے اگر اسے شفاء قرار دیا ہے تو پھر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہو گی‘ دوسرا یہ پانی پانچ ہزار سال سے رواں ہے‘ خانہ کعبہ کی حدود میں چھوٹا سا کنواں ہے اور اس کا پانی پانچ ہزار سال بعد بھی کم ہو رہا ہے اور نہ ختم‘ یہ آج بھی قدیم زمانے کی طرح جاری ہے چناں چہ میری درخواست ہے آپ دواء اور ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ اسے بھی ٹرائی کر لیں ہو سکتا ہے یہ واقعی کام کر جائے کیوں کہ یہ حقیقت ہے شفاء علاج یا دواء میں نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہوتی ہے اور آب زم زم اس کی رضا ہے‘مجھے یقین ہے آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔

نوٹ: ہمارا گروپ جنوری کے آخری ہفتے میں تیونس اور مراکو جا رہا ہے‘آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے درج ذیل نمبرز پر رابطہ کیجیے۔
0331-3334562, 0301-3334562, 0331-5637981

blank

ibex

موضوعات:

Source link
javedch.com

اپنا تبصرہ بھیجیں