وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ ہوگا کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا ہے، 10 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو نا قابل برداشت ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 13 فیصد پر لے کر جانا ہے جس کے لیے مختلف اداروں کو بہتر کرنا ہے۔
اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے، جی ڈی پی کا 10 فیصد ٹیکس برقرار نہیں رہ سکتا، اسے 2 سے 3 سالوں میں اسے 13 فیصد تک لے کر جانا ہے، دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو جی ڈی پی کے ساڑھے 9 ٹیکس پر بیرونی امداد کے بغیر مستحکم ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ غیر دستاویزی معیشت کو ختم کرنے کے لیے اس کی ڈیجٹائزیشن، یہ جو ابھی بات ہو رہی ہے کہ ایف بی آر کی کیا کارکردگی ہے، یہ بات درست ہے کہ جس طرح سے نفاذ اور عمل درآمد ہونا چاہیے تھا، ویسا نہیں ہے, ڈیجٹائزیشن کا مقصد انسانی عمل دخل کو کم سے کم کرنا ہے، اس سے کرپشن میں بھی کمی ہوگی اور کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ پروگریسو ٹیکس سسٹم کے تحت زیادہ آمدنی والوں پر زیادہ ٹیکس عائد کے نفاذ میں میرا نہیں خیال کہ اس میں کسی کو کوئی مزائقہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح سے نافائلرز کے لیے کاروباری ٹرانزیکشن کے ٹیکس میں نمایاں اضافہ ہے، کیونکہ اس میں 3، 4 فیصد اضافہ ناکافی تھا، اس کو ہم کئی جگہوں پر 45 فیصد پر لے گئے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ نان فائلرز ضرور سوچیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نان فائلرز کی اختراع کو ختم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے، میرا نہیں خیال کہ کوئی اور ملک ایسا ہوگا جہاں نان فائلرز کی اختراع نکالی گئی ہو۔
پیٹرولیم لیوی سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ جو 60 سے 80 روپے کی تجویز ہے، ہم اسے پہلے دن ہی لگانے نہیں جا رہے، اس میں اگلے مالی سال کے دوران بتدریج اضافہ ہوگا، اس میں بھی ہم عالمی قیمتوں پر نظر رکھیں گے اور اس کی مطابقت سے اس کو آگے لے کر چلیں گے۔
سیلری سلیب سے متعلق سوال پر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سیلری ٹیکس سے استثنٰی والی کیٹیگری کو برقرار رکھا گیا ہے، اسی طرح سے جو ٹاپ سلیب ہے، وہ بھی اسی طرح سے برقرار ہے، سیلری کلاس کے علاوہ پروفیشنلز کمیونٹی آتی ہے، اس کو تو ہم 45 فیصد پر لے گئے ہیں، سلیب میں رد و بدل ہے، مجموعی طور پر یہ نمبر بڑا نظر آتا ہے، انفرادی سطح پر دیکھیں تو اس میں اتنا بڑا بوجھ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ریٹیلرز کا تعلق ہے، سارے جو اس شعبے سے منسلک ہیں، تو ابھی آپ نے پوچھا کہ بس یہی کلاس رہ گئی ہے جو آپ کے پاس چھوڑی گئی ہے تو اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اگر ہم اس سمت میں آگے نہیں بڑھیں گے تو کوئی بھی آجائے، اس کو یہی کرنا پڑے گا، اس لیے جو ہمارے ریٹیلرز، ہول سیلرز بھائی بہن ہیں ان کو نیٹ میں لانا ضروری ہے تاکہ بوجھ بانٹا جائے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے یہ جو رجسٹریشن شروع کی وہ رضاکارانہ بنیاد پر کی اپریل میں، اور آپ سب لوگوں نے اسے سب سے بڑی ناکامی قرار دیا اور ٹھیک بھی کہا آپ لوگوں نے، ہم نے کہا تھا اپریل میں کہ اس کو خود رجسٹر کریں اور اب تو ایپ ہے اس کے ذریعے رجسٹریشن کرنی تھی تو صرف 75 لوگوں نے یہ کیا، یہ ہوتا ہے جب رضاکارانہ بنیاد پر کام ہو تو۔
ان کا کہنا تھا کہ پھر مئی میں ہمیں اس کو اس طرف لے کر جانا تھا تو 6 شہروں میں ایف بی آر کی ورک فورس کام پر لگی اور 31ہزار کے قریب ریٹیلرز رجسٹر ہوچکے ہیں اور ہم اسے جاری رکھیں گے کیونکہ جولائی سے ٹیکس کا اطلاق ہونا شروع ہوجائے گا۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ یہ جو ٹیکس ہے یہ 2022 میں لگ جانا چاہیے تھا، ہمیں ریٹیلرز، ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لے آنا چاہیے تھا، ہمارے پاس اب چارہ کوئی نہیں ہے سوائے اس کو کہ ہم یقینی بنائیں کہ ان شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
غیر قانون کیش ٹرانزیکشن کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد اورنگزیب کا کہنا تھا یہ سب چیزیں ڈیجیٹلائزیشن اور غیر دستاویزی معیشت سے منسلک ہیں، اس وقت گردشی نقدی 90 کھرب ہے، تو اس لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ جتنی بھی پالیسی اقدامات ہیں اس کو وہاں لے کر جائیں اور جو سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا پی او ایس جیسا تو ہم اس کو دوبارہ شروع کریں گے تاکہ کیش ٹرانزیکشن کو ختم کیا جائے اور اسے دستاویزی کیا جائے۔
Source link
www.suchtv.pk